کیا آپ کے دفتر میں کام کرنے کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہے، کیا آپ کئی گھنٹوں تک ایک ہی کرسی میں بیٹھ کر کام کرنے پر مجبور ہیں، اگر ہاں تو یہ آپ کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق طویل وقت تک کام کرنے کی عادت مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہر سال ہزاروں افراد طویل اوقات کار کی وجہ سے اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور کوڈ 19 وبا کے دور میں اس اعداد و شمار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
لمبی شفٹ لے رہی ہے جان
طویل گھنٹے تک کام کرنے کی وجہ سے ہونے والی اموات کے بارے میں پہلی عالمی تحقیق میں پایا گیا ہے کہ سنہ 2016 میں طویل وقت تک کام کرنے سے 7 لاکھ 45 ہزار لوگوں میں دل کی بیماری ہونے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے۔یہ اعداد و شمار سال 2000 کے اعداد و شمار کے مقابلے 30 فیصد زیادہ ہے۔ان میں سے 3 لاکھ 98 ہزار افراد کی موت اسٹروک اور 3 لاکھ 47 ہزار لوگوں کی موت دل کی بیماری کی وجہ سے ہوئی ہے اور یہ سب ہفتہ میں 55 گھنٹے یا اس سے زیادہ کام کرنے کا نتیجہ ہے۔ورکنگ اوور سے زائد گھٹنوں تک کام کرنے کی وجہ سے سال 2000 کے مقابلے سال 2016 میں دل کی بیماریوں سے 42 فیصد اموات اور فالج کی اموات میں 19 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
خطرے کی گھنٹی
تحقیق کے مطابق یہ معلوم چلا ہے کہ جو لوگ ایک ہفتہ میں 55 گھنٹے یا اس سے زیادہ کام کرتے ہیں ، انھیں صحت کے معاملے میں سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 55 گھنٹے یا اس سے زیادہ کام کرنے والوں میں فالج کا 35 فیصد اور 17 فیصد دل کی بیماری سے موت ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔دنیا کی کل آبادی میں لمبی شفٹ میں کام کرنے والے لوگوں کی تعداد 9 فیصد تک پہنچ چکی ہے اور مسلسل اس میں اضافہ ہورہا ہے اور کورونا کے دوران اس میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔
لیکن عالمی ادارہ صحت اور بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے مشترکہ مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اس سے سب سے زیادہ متاثر(72 فیصد) مرد ہوتے ہیں ، جو درمیانی عمر یا اس سے زیادہ عمر کے ہوتے ہیں۔ مطالعہ کے مطابق طویل کام کے اوقات کا اثر بہت بعد میں نظر آتا ہے۔ لمبی شفٹوں میں کام کرنے والوں کے جسم پر آہستہ آہستہ منفی اثرات مرتب ہونے لگتے ہیں ، جو دھیرے دھیرے ایک خطرناک شکل اختیار کرلیتا ہے۔
کن ممالک میں سب سے زیادہ اثر
تحقیق کے مطابق جنوب مشرقی ایشیا، مغربی بحر الکاہل میں درمیانی عمر اور بوڑھے لوگوں میں اس کا اثر دیکھا گیا ہے۔ چین ، جاپان اور آسٹریلیا سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ یہ مطالعہ مجموعی طور پر 194 ممالک کے اعداد و شمار پر مبنی ہے، اس مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ ہفتے میں 55 گھنٹے یا اس سے زیادہ کام کرنے میں فالج کا خطرہ 35 فیصد زیادہ ہوتا ہے اور ہفتہ میں 35 سے 40 گھنٹے تک کام والوں میں دل کی بیماری کا خطرہ 17 فیصد بڑھ جاتا ہے۔
یہ مطالعہ سال 2000 اور 2016 کے درمیان کیا گیا ہے، اس میں کووڈ 19 وبائی بیماری کا مرحلہ شامل نہیں ہے۔ لیکن ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق کورونا (گھر سے کام کرنے) کی وجہ سے لوگوں کے کام کرنے کے طریقے اور عالمی کساد بازاری نے اس خطرے کو اور بڑھا دیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے نمائندوں کے مطابق
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے صدر ٹیڈروس ایڈ؛ہنوم گھبریئز سمیت کئی ملازمین کا کہنا ہے کہ وہ وبائی مرض کے دوران ایک طویل وقت سے کام کر رہے ہیں اور اقوام متحدہ کو اس تحقیق کے بعد اپنی پالیسی میں بہتری کرنی چاہیے۔
ڈبلیو ایچ او کے محکمہ ماحولیات ، ماحولیاتی تبدیلی اور صحت محکمہ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ماریہ نیرا نے کہا کہ 'ہر ہفتے 55 گھنٹے یا اس سے زیادہ کام کرنے سے صحت کو شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے ورنہ یہ قبل از وقت موت کا باعث بن سکتا ہے۔
ضروری اقدام کیا ہیں
ملازمین کی صحت کی حفاظت کے لیے حکومت سے لے کر نوکری دینے والے اداروں کو اس حوالے سے کچھ ضروری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
- حکومتوں کو ایسے قواعد لانے ہوں گے۔ جس کے تحت کام کے اوقات کی حد طے ہوتی ہے اور اس مقررہ مدت سے زیادہ اوور ٹائم کام کرنے پر پابندی عائد ہوگی
- کمپنی اور مزدور یونین کے درمیان ایک سمجھوتا ہونا چاہیے۔ جس کے تحت آپ کام کے وقت کو مزید لچکدار بنانے کے انتظامات کرنے کی کوشش کی جائے، اس کے ساتھ ساتھ اوقات کار کی زیادہ سے زیادہ حد پر بھی اتفاق کیا جانا چاہئے۔
- ملامین کو اس طرح سے کام کرنا ہوگا کہ کام کے گھٹنوں کی تعداد ہر ہفتے 55 گھنٹے سے زیادہ نہ ہو