ETV Bharat / bharat

لکھنؤ کے فرنگی محل کا آکسفورڈ یونیورسٹی سے کیوں موازنہ کیا جاتا تھا؟

لکھنؤ وکٹوریہ روڈ اور چوک کے مابین واقع فرنگی محل کو مغلیہ دور کا سب سے بڑی درسگاہ کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ شبلی نعمانی نے فرنگی محل کا آکسفورڈ یونیورسٹی سے موازنہ کیا تھا۔ اس زمانے میں فرنگی محل کا تعلیمی معیار اس قدر بلند تھا کہ بمقابلہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پیش کیا جاتا تھا۔

know about historical firangi mahal of lucknow
لکھنؤ کے فرنگی محل کو آکسفورڈ یونیورسٹی سے کیوں موازنہ کیا جاتا تھا؟
author img

By

Published : Sep 2, 2021, 10:43 PM IST

مولانا خالد رشید فرنگی محلی بتاتے ہیں کہ فرنگی محل کی تاریخ بہت ہی شاندار اور تابناک رہی ہے۔ یہاں سے متعدد غیر معمولی صلاحیت کے حامل علماء، علم طب کے ماہر و دیگر علوم و فنون کے ماہرین تعلیم حاصل کرکے فارغ ہوئے اور ملک و بیرون ملک میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

دیکھیں ویڈیو

ماہرین کے مطابق فرنگی محل لکھنؤ کا ایک محلہ تھا جہاں پر فرانسیسی تاجر رہتے تھے۔ وہیں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے فرمان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک محل تھا، فرانسیسی تاجر جب اس محل کو چھوڑ کر چلے گئے جس کے بعد حکومت نے اپنی تحویل میں لیا اور ملا قطب الدین شہید بن سعد اور ملا قطب الدین بن اسعد کو دیا جو بادشاہ کے مشیر تھے، اس کے بعد انہوں نے اس کو بہترین اسلامی تعلیمی ادارے میں تبدیل کیا۔

یہاں کے تعلیمی معیار نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی لیکن آزادی کے بعد یہ زوال پذیر ہے اور اب یہ عمارت خستہ ہوچکی ہے۔ اب یہاں علمائے فرنگی محل کے خاندان کے چند افراد رہائش پذیر ہیں۔

مولانا خالد رشید فرنگی محلی بتاتے ہیں کہ آج سے تقریباً تین سو برس قبل، ملا قطب الدین کے چار صاحبزادے تھے جن کو اورنگزیب نے خط لکھ کر فرنگی محل کو ان کے حوالے کیا تھا۔ ان چاروں بیٹوں کے نام ملا سعد اسعد، ملا نظام الدین اور ملا رضا تھا ملا نظام الدین نے مدرسہ نظامیہ قائم کیا جس کا نصاب تعلیم بغداد کے مدرسہ نظامیہ سے ملتا جلتا رہا اور وہی نصاب تعلیم آج بھی سبھی مدارس کے درس نظامی میں پڑھایا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فرنگی محل کے نامور عالم دین علامہ عبد الحیٔ فرنگی محلی کا نام سر فہرست ہے، جنہوں نے 39 برس کی عمر میں 116 کتابیں تصنیف کریں۔ اس کے علاوہ متعدد درسی کتابوں پر حاشیہ لکھا جس پر آج بھی ابھی تحقیق جاری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ علامہ عبدالعلی فرنگی محلی علی کے بھی غیر معمولی خدمات ہیں۔ اس کے بعد مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے نہ صرف علمی میدان میں نمایاں کارکردگی ہیں بلکہ سماجی خدمات و جنگ آزادی کے حوالے سے بھی مولانا عبد الحیٔ فرنگی محلی کو جانا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فرنگی محل میں نہ صرف درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوتا تھا بلکہ ملک پر جب انگریزی سامراج کا تسلط ہوا تو انگریزوں کے خلاف منصوبہ بند طریقے سے محاذ آرائی کی گئی اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے مولانا عبد الباری فرنگی محل نے لکھنؤ کے رفاہِ عام میدان میں گاندھی جی کی موجودگی میں گائے ذبح کرنے کے خلاف فتویٰ کا اعلان کیا تھا، جس کا ذکر خود گاندھی جی نے اپنی بایو گرافی میں کیا ہے۔

یہاں پر متعدد بڑی شخصیات نے دورہ کیا جس میں گاندھی جی ،مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر، سروجنی نائیڈو، جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں:گیا: کامیابی کے سفر میں مفلسی بڑی رکاوٹ

اس کے احیاء کے لیے کام جاری ہے، عیش باغ عیدگاہ کے احاطے میں مدرسہ نظامیہ قائم کیا گیا، جہاں پر طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔

مولانا خالد رشید فرنگی محلی بتاتے ہیں کہ فرنگی محل کی تاریخ بہت ہی شاندار اور تابناک رہی ہے۔ یہاں سے متعدد غیر معمولی صلاحیت کے حامل علماء، علم طب کے ماہر و دیگر علوم و فنون کے ماہرین تعلیم حاصل کرکے فارغ ہوئے اور ملک و بیرون ملک میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

دیکھیں ویڈیو

ماہرین کے مطابق فرنگی محل لکھنؤ کا ایک محلہ تھا جہاں پر فرانسیسی تاجر رہتے تھے۔ وہیں مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے فرمان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک محل تھا، فرانسیسی تاجر جب اس محل کو چھوڑ کر چلے گئے جس کے بعد حکومت نے اپنی تحویل میں لیا اور ملا قطب الدین شہید بن سعد اور ملا قطب الدین بن اسعد کو دیا جو بادشاہ کے مشیر تھے، اس کے بعد انہوں نے اس کو بہترین اسلامی تعلیمی ادارے میں تبدیل کیا۔

یہاں کے تعلیمی معیار نے بین الاقوامی شہرت حاصل کی لیکن آزادی کے بعد یہ زوال پذیر ہے اور اب یہ عمارت خستہ ہوچکی ہے۔ اب یہاں علمائے فرنگی محل کے خاندان کے چند افراد رہائش پذیر ہیں۔

مولانا خالد رشید فرنگی محلی بتاتے ہیں کہ آج سے تقریباً تین سو برس قبل، ملا قطب الدین کے چار صاحبزادے تھے جن کو اورنگزیب نے خط لکھ کر فرنگی محل کو ان کے حوالے کیا تھا۔ ان چاروں بیٹوں کے نام ملا سعد اسعد، ملا نظام الدین اور ملا رضا تھا ملا نظام الدین نے مدرسہ نظامیہ قائم کیا جس کا نصاب تعلیم بغداد کے مدرسہ نظامیہ سے ملتا جلتا رہا اور وہی نصاب تعلیم آج بھی سبھی مدارس کے درس نظامی میں پڑھایا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فرنگی محل کے نامور عالم دین علامہ عبد الحیٔ فرنگی محلی کا نام سر فہرست ہے، جنہوں نے 39 برس کی عمر میں 116 کتابیں تصنیف کریں۔ اس کے علاوہ متعدد درسی کتابوں پر حاشیہ لکھا جس پر آج بھی ابھی تحقیق جاری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ علامہ عبدالعلی فرنگی محلی علی کے بھی غیر معمولی خدمات ہیں۔ اس کے بعد مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے نہ صرف علمی میدان میں نمایاں کارکردگی ہیں بلکہ سماجی خدمات و جنگ آزادی کے حوالے سے بھی مولانا عبد الحیٔ فرنگی محلی کو جانا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فرنگی محل میں نہ صرف درس و تدریس کا سلسلہ شروع ہوتا تھا بلکہ ملک پر جب انگریزی سامراج کا تسلط ہوا تو انگریزوں کے خلاف منصوبہ بند طریقے سے محاذ آرائی کی گئی اور ہندو مسلم اتحاد کے لیے مولانا عبد الباری فرنگی محل نے لکھنؤ کے رفاہِ عام میدان میں گاندھی جی کی موجودگی میں گائے ذبح کرنے کے خلاف فتویٰ کا اعلان کیا تھا، جس کا ذکر خود گاندھی جی نے اپنی بایو گرافی میں کیا ہے۔

یہاں پر متعدد بڑی شخصیات نے دورہ کیا جس میں گاندھی جی ،مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی جوہر، سروجنی نائیڈو، جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں:گیا: کامیابی کے سفر میں مفلسی بڑی رکاوٹ

اس کے احیاء کے لیے کام جاری ہے، عیش باغ عیدگاہ کے احاطے میں مدرسہ نظامیہ قائم کیا گیا، جہاں پر طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.