کرناٹک ہائی کورٹ نے منگل کے روز آلٹ نیوز کے بانی محمد زبیر کی ٹرانزٹ ضمانت کی درخواست پر نوٹس جاری کیا ہے۔
دراصل گزشتہ دنوں محمد زبیر کے ذریعہ غازی پور کے ایک بزرگ شخص کے ساتھ ہوئے تشدد کا ایک ویڈیو شیئر کرنے کے الزام میں اترپردیش پولیس نے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔
منگل کے روز سماعت کے دوران زبیر کے وکیل وریندر گروور نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ اترپردیش پولیس نے پیر کو سی آر پی سی کی دفعہ 41 اے کے تحت صحافی کو نوٹس بھیجا تھا اور اس معاملے سے متعلق اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لئے 28 جون کو تفتیشی افسر کے روبرو ہونے کو کہا تھا۔اس نوٹس میں پولیس نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کا زیبیر کو گرفتار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا کیونکہ ایف آئی آر میں ان کے جرم میں سات سال قید کی سزا ہے۔
اس کے بعد ہائی کورٹ کے جسٹس محمد نواز کی سنگل بینچ نے کہا کہ چونکہ نوٹس دفعہ 41 اے کے تحت بھیجا گیا تھا، لہذا اگر وہ اس کی تعمیل کرتے ہیں تو انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔
ہائیکورٹ نے اس بات پر بھی غور کیا کہ آلٹ نیوز کے شریک بانی زبیر کو ٹرانزٹ ضمانت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس معاملے میں گرفتاری کا کوئی خدشہ نہیں ہے۔
مزید پڑھیں:غازی آباد: بزرگ مسلم شخص کے ساتھ مارپیٹ، ویڈیو وائرل
زبیر کے وکیل گروور نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ گزشتہ روز بمبئی ہائی کورٹ نے اسی معاملے میں ایک اور صحافی رانا ایوب کی ٹرانزٹ ضمانت منظور کرلی ہے۔ جس کے بعد ہائی کورٹ نے زبیر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے رانا ایوب کی ٹرانزٹ ضمانت کے آرڈر اور پولیس شکایت کی ایک کاپی طلب کی۔ اب اس معاملے کی آئندہ سماعت 29 جون کو ہوگئی۔
- زبیر کے علاوہ دیگر صحافیوں پر بھی مقدمہ درج
زبیر کے ساتھ نیوز ویب سائٹ دی وائر کی صحافی صبا نقوی، رانا ایوب، کانگریس کے رہنما سلمان نظامی، مشکور عثمانی اور سماں محمد کے خلاف بھی یہ ویڈیو شئیر کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔وہیں سوشل میڈیا پلیٹفارم ٹوئیٹر کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے کیونکہ اس پلیٹ فارم پر یہ پوسٹ زیادہ شیئر کیا گیا ہے۔
- کئی دفعات کے تحت مقدمہ درج
غازی آباد پولیس نے لونی بارڈر پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف دفعہ 153(فساد برپا کرنے کا ارادہ رکھنا)، دفعہ 153اے (مختلف گروہوں کے مابین دشمنی کو فروغ دینا) ، 295 اے(عمداً اشتعال پیدا کرنا اور مذہبی جذبات کو مجروح کرنا)، دفعہ 505 اور دفعہ 120 بی ( مجرمانہ سازش) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غازی آباد پولیس کے جانب سے مذہبی منافرت پھیلانے والی بات سے انکار کرنے کے باوجود انہوں نے اپنے پوسٹ کو ہٹایا نہیں اور ٹویٹر نے بھی اس پوسٹ کو ہٹانے کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا کہ ویڈیو شیئر کرتے وقت جن خیالات کا اظہار کیا گیا وہ انفرادی آراء نہیں تھے ، بلکہ انہیں واضح ارادے کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا اور ویڈیو کا شیئر کرنا مجرمانہ سازش کی نشاندہی کرتا ہے۔ویڈیو شیئر کرنے کا مقصد ہندو اور مسلم دونوں طبقے میں نفرت پیدا کرنا تھا۔
- پورے معاملے پر ایک نظر
زبیر اور دیگر افراد پر 14 جون کو سوشل میڈیا پر ایک بزرگ شخص پر ہوئے حملے کی ویڈیو کو شئیر کرنے کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ویڈیو میں 72 سالہ عبدالصمد سیفی یہ کہہ رہے ہیں کہ 5 جون کو انہیں کچھ لوگوں نے آٹو رکشا میں زبردستی بٹھا کر اغوا کرلیا اور انہیں غازی آباد کے لونی علاقے میں واقع ایک ویران گھر میں بند کرکے رکھا گیا۔سیفی نے یہ بھی الزام لگایا کہ ان پر حملہ کیا گیا اور انہیں جے شری رام بولنے پر مجبور کیا گیا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ حملہ آوروں نے ان کی داڑھی کاٹ دی اور انہیں دوسرے مسلمانوں پر ہوئے حملے کی ویڈیوز بھی دکھائے گئے۔
غازی آباد پولیس نے سیفی کی شکایت کی بنیاد پر مقدمہ درج کیا۔جس کے بعد پولیس نے 15 جون کو دعوی کیا ہے کہ اس حملے کی وجہ کوئی مذہبی منافرت نہیں تھی۔پولیس نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ وائرل ویڈیو پر ہوئے ٹویٹس "فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ختم کرنے کی کوشش" ہیں۔
پولیس نے یہ بھی کہا کہ عبدالصمد پر چھ لوگوں نے حملہ اس لیے کیا کیونکہ وہ عبدالصمد کے ذریعہ بیچے گئے تعویذ سے ناخوش تھے۔