جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سنہ 2019 کے ماہ دسمبر میں ہوئے تشدد معاملہ میں طالب علم محمود انور کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی جس میں اب جامعہ کے مذکورہ طالب علم کو ضمانت مل گئی ہے۔ اس پورے معاملے پر محمود انور نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے سے بات چیت کی۔
محمود نے بتایا کہ جب 13 دسمبر کو شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کیا جا رہا تھا، اس دوران پولیس اور احتجاجی مظاہرین کے مابین جھڑپ ہو گئی تھی اور پولیس نے جامعہ کیمپس کے اندر داخل ہو کر مار پیٹ کی، میں اس وقت انجینئرنگ دپارٹمنٹ کے گیٹ کے باہر تھا اور ویڈیو میں بھی صاف طور دیکھا جا سکتا ہے کہ میں صرف کھڑا ہوا تھا، نہ میرے ہاتھ میں پتھر تھے اور نہ ہی میں تشدد میں ملوث تھا۔
مزید پڑھیں:۔ جامعہ تشدد معاملہ: دہلی پولیس نے چارج شیٹ داخل کی
محمود نے بتایا کہ اس کے ایک دوست نے اسے بتایا کہ گیٹ پر بھیڑ جمع ہے، جسے دیکھنے کے لیے میں وہاں پہنچا لیکن اس کے بعد مجھے سمن جاری ہوا اور مجھ پر متعدد دفعات لگا دی گئی لیکن خدا کا شکر ہے کہ مجھے اب ضمانت مل گئی ہے۔
اس پورے معاملے پر مجلس اتحاد المسلمین کے ریاستی صدر کلیم الحفیظ نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران جو تشدد ہوا اور اس کے بعد پولیس نے طلبہ کے خلاف ظالمانہ کارروائی کرتے ہوئے ان طلبہ کو نامزد کیا یہ سرا سر ظلم ہے۔
انہوں نے کہا کہ طلبہ کے خلاف پولیس کا برتاؤ ایسا نہیں ہونا چاہیے، طلباء اس ملک کا مستقبل ہیں۔ پولیس کو چاہیے کہ وہ طلباء کے لیے اپنے طریقہ میں نرمی لائیں۔