حیدر آباد: تلنگانہ کے دارالحکومت حیدر آباد میں واقع اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل خانے میں انقلاب اسلامی کی 44 ویں سالگرہ کے موقعے پر ایک پرشکوہ تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں حیدرآباد کی سرکردہ شخصیات کے علاوہ، دانشوروں، علماء، تاجروں اور صحافیوں نے شرکت کی۔ ایران میں انقلاب کی سالگرہ کو قومی دن کے طور منایا جاتا ہے۔
اس موقع پر قونصل جنرل مہدی شاہ رخی نے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ 'ایران میں 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد تعمیر و ترقی کی منزلیں طے ہوئی ہیں۔' انہوں نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ 'کس طرح طب و سائنس، ٹکنالوجی اور دیگر امورات میں ایران اس وقت دنیا کے پہلے دس ممالک میں شمار ہوتا ہے۔' انہوں نے کہا کہ 'انقلاب کے بعد ایران میں شرح خواندگی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ملک کے آبادی کا نوے فیصد حصہ خواندہ ہے۔'
مہدی شاہ رخی نے کہا کہ 'ایران کو 44 سالہ سفر میں کئی بڑے چیلنجز کا سامنا کر نا پرا لیکن اس ملک کی قیادت نے دور اندیشی اور مہارت کے ساتھ ان چیلنجز کا مقابلہ کرکے ملک کو تعمیر و ترقی کے راستے پر برقرار رکھا۔' انہوں نے کہا کہ 'اسلام دشمن قوتیں ایران کی بڑھتی ہوئی قوت سے ہمیشہ خائف رہی ہیں اسلئے انکی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ایران کی رفتار ترقی میں رخنہ انداز ہوں تاہم انکی ان کوششوں کو ہمیشہ ناکامی کا منہہ دیکھنا پڑا ہے۔'
شاہ رخی نے ایران میں مہسا امینی کی موت کے بعد پیدا شدہ حالات کا تزکرہ کرتے ہوئے کہا کہ 'مغربی میڈیا نے پروپگیڈہ کے ذریعے حالات کی غلط عکاسی کی۔ انہوں نے کہا کہ بوتس ٹکنالوجی کا استعمال کرکے ایران کے خلاف میڈیا مہم چلائی گئی لیکن اس میں کامیابی نہیں ملی۔' تقریب کا آغاز تلاوت کلام اللہ سے ہوا اور ابتدا میں اسکول بچوں نے ایران اور بھارت کے قومی ترانے پیش کئے جبکہ قونصل جنرل نے ایرانی روایات کے مطابق سالگرہ کی یاد میں ایک کیک بھی کاٹا۔
یہ بھی پڑھیں: 'مولانا کلب صادق کا بھارت ایران کے درمیان ثقافتی ربط قائم کرنے میں اہم کردار'
اس تقریب میں خصوصی طور نواب رونق خان نے شرکت کی جنہیں اسی روز آصف جاہی خاندان سے منسلک کم و بیش 4500 وارثین پر مشتمل مجلس صاحبزادگان سوسائٹی نے نویں نظام حیدرآباد کے طور نامزد کرکے تاجپوشی کی۔ نواب رونق خان کو یہ نظامت پرنس عظمت جاہ کے انتقال کے بعد دی گئی ہے جنکا گزشتہ ماہ استنبول میں انتقال ہوا۔ بعد میں انکے جسد خاکی کو حیدر آباد لایا گیا اور مکہ مسجد کے احاطے میں انکی وصیت کے مطابق تدفین عمل میں لائی گئی جہاں ماضی کے سبھی نظاموں کی قبریں موجود ہیں۔