شاعر اسیم مچھلی شہری کا تعلق جونپور کی تحصیل مچھلی شہر سے ہے۔ ان کا شمار ضلع کے اچھے و معتبر شعرا میں کیا جاتا ہے۔ ان کو اردو و ہندی دونوں کے اسٹیج پر سراہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں سماجی مسائل پر طنز اور انقلاب کا رنگ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اسیم مچھلی شہری متعدد اردو و ہندی تنظیموں کے ذمہ دار بھی ہیں۔
شاعر اسیم مچھلی شہری نے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ تعلیمی سفر کی شروعات اردو زبان سے ہوئی ہے۔ اس لیے شعر و شاعری کا شوق شروع سے ہی رہا۔
اسیم مچھلی شہری بتاتے ہیں کہ شعر و سخن میں ان کے پہلے اور آخری استاد شاعر عبرت مچھلی شہری رہے۔ سنہ 2002 سے باقاعدہ از خود اشعار کہنے کا سلسلہ دراز ہوا۔ ساتھ ہی ادبی پروگرامز میں شرکت اور جونپور کی ادبی فضا کا ملنا بھی فخر کی بات تھی اور بزرگوں کا ساتھ ملا، اس طرح یہ سلسلہ ہنوز قائم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلی مرتبہ جب عوامی پروگرام میں میری شرکت ہوئی تو اس وقت کافی گھبراہٹ ہو رہی تھی کیونکہ بڑے بڑے نامور شعرا اسٹیج پر موجود تھے لیکن غزل پیش کیا تو سامعین نے کافی سراہا جس سے حوصلہ ملا۔ پھر پروگرامز میں مسلسل شرکت ہوتی رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
ایک شاعر سیریز: شاعر طلحہ رضوی برق سے خصوصی گفتگو
اسیم مچھلی شہری نے کہا کہ مشاعروں میں تو کم شرکت رہی کیونکہ مشاعروں کے حالات اب خراب ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق آج کل مشاعروں میں متشاعر آ گئے ہیں جس کی وجہ سے شاعروں کی قدرو قیمت کم ہو گئی ہے اور لوگ صرف اداکاری کے لیے جانے پہچانے جاتے ہیں مگر نشستوں میں مسلسل شرکت ہوتی رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مشاعرے اب پروفیشنل ہو گئے ہیں۔ شاعر جذبات کو زیادہ ابھارتا ہے، جو سچائی نہیں ہوتی، جب کہ نشستوں میں خاص طور سے ادب کو فروغ ملتا ہے، شاعری و اردو زبان کو فروغ ملتا ہے۔ اس لیے ہماری خواہش اور کوشش رہتی ہے کہ طرحی نشستوں کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ اردو زبان لوگوں تک پہنچ سکے اور اس کا فروغ ہو سکے۔
انہوں نے بتایا کہ ذہن منتشر ہونے کی وجہ سے ابھی تک شعری مجموعہ زیرِ ترتیب ہے منظر عام پر نہیں آسکا مگر چند دنوں میں آجائے گا۔