ETV Bharat / bharat

کیا نیپال میں پرچنڈا کے وزیر اعظم بننے سے چین نے امریکہ اور ہندوستان کو مات دی؟

author img

By

Published : Dec 30, 2022, 1:14 PM IST

Updated : Dec 31, 2022, 6:36 AM IST

کیا پشپا کمل دہل کا نیپال کا وزیر اعظم بننا بھارت کے لیے ایک جھٹکا ہے؟ کیا چین ہمالیائی ملک میں بھارت اور امریکہ کو ایک طرف دھکیلنے میں کامیاب ہوگیا ہے؟ سینئر صحافی سنجے کپور ان پر اور دیگر سوالات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ نئی دہلی کی صورتحال کھٹمنڈو میں کیسی ہے۔ sanjay kapoor analysis on new government in Nepal

sanjay kapoor on India in Nepal
پرچنڈا کی حلف برداری

نئی دہلی: بھارت کے لیے یہ خبر انتہائی پریشان کن اور حیرت زدہ کرنے والی تھی کہ پڑوسی ملک نیپال میں پشپا کمل دہل یا پرچنڈا (خوفناک شخص) نے شیر بہادر دیوبا کی زیر قیادت نیپالی کانگریس اتحاد کو چھوڑ کر کے پی شرما اولی کی قیادت میں سی پی این (یو ایم ایل) کے ساتھ دوبارہ ہاتھ ملاکر ہمالیائی ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے باگ ڈور سنبھالی۔ کھٹمنڈو میں ایک سابق بھارتی سفیر نے دعویٰ کیا کہ یہ بھارت کے لیے ایک دھچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ بھارت پڑوسی ملک میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔

جب سے انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا گیا جس میں کسی بھی اتحاد کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی، یہ نیپال میں شدید بحث کا موضوع تھا، جس کی بازگشت دہلی میں بھی سنائی دی کہ آخر کیوں کھٹمنڈو میں بھارت اپنا اثر و رسوخ کھو رہا ہے؟ درحقیقت، امریکہ اور چین قیادت کے انتخاب کے لیے اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں، نہ کہ نئی دہلی۔ پرچنڈا کے وزیر اعظم کے طور پر انتخاب نے کیا واقعی چین نے امریکہ اور بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے؟

اگرچہ یہ بہت سے لوگوں کے لیے عیاں ہے کہ پچھلے چند مہینوں میں ہونے والی سرگرمیوں سے پتہ چلتا ہے کہ اولی سے جڑے لوگوں اور پرچنڈا کو بھارتی ایجنسیوں اور راشٹریہ سویم سیوک نے کافی حد تک ملائم کردیا ہے، آر ایس ایس کھٹمنڈو میں بہت سرگرم ہے۔ یاد رہے کہ 2015 میں اس وقت کے بھارتی سکریٹری خارجہ ایس جے شنکر نے نئے سیکولر آئین کے اطلاق پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔

اس وقت کی نیپالی حکومت، جس کی قیادت ماؤسٹ کر رہے تھے، نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں ملک کو 'ہندو ریاست' قرار دینے پر آمادہ کیا جا رہا ہے، جسے انہوں نے سرے سے مسترد کر دیا۔ اس کے سامنے، نئی دہلی واقعتاً اس اچانک تبدیلی کی توقع نہیں کر رہا تھا اور وہ اس پر مطمئن تھی کہ اسے دیوبا کی قیادت میں ایک ایسا اتحاد دستیاب ہوا ہے جس میں پرچنڈا کی زیر قیادت کیمونسٹ پارٹی کا ایک گروپ، مغرب نواز راشٹریہ سوتنترا پارٹی اور دربار نواز پرجا تنترا پارٹی شامل ہیں جو بظاہر چین حامی کے پی اولی کی قیادت والے اتحاد کا قلع قمع کرنے کا مؤجب بن سکتا ہے۔

نیپال، جو خطے میں سازشوں اور طاقت کے کھیل کا ایک کاک پٹ ہے، نے نئی دہلی میں اس وقت بے چینی پھیلائی تھی جب واضح طور پر بھارت مخالف، شرما وزیر اعظم تھے۔ انتخابی نتائج ایک غیر واضح پیغام دیتے ہیں کہ بحری رابطوں سے عاری اس ملک میں طاقت کے توازن میں تبدیلی آئی ہے اور اب یہاں امریکہ شو چلا رہا ہے۔

اس تاثر کو اس حقیقت سے تقویت ملی کہ ایک نئی مغرب نواز پارٹی جس کی سربراہی ایک ٹی وی اینکر، رابی لامیچن کر رہے تھے، نہ صرف 20 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی بلکہ ایک کنگ میکر کے طور پر بھی ابھری۔ اس کے علاوہ، امریکی سفیر بظاہر چین نواز گروپ بندی کو دور رکھنے کے لیے ایک اتحاد کو قائم کرنے کی کوشش میں کافی مصروف تھے۔

پرچنڈا کی قیادت میں نئی حکومت میں، لامیچن، جن کی پارٹی نے بدعنوانی سے لڑنے کے معاملے پر الیکشن لڑا، ملک کے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ہیں۔ وہ نیپالیوں کی ایک ایسی نسل کی نمائندگی کرتے ہیں جس کا بھارت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ مغرب سے متاثر ہیں اور ان کی قربت کے خواہشمند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مبصرین کا دعویٰ ہے کہ لامیچن کے حمایتی طاقتور ہیں۔

نیپال کے مبصرین کے مطابق، نیپال کے معاملات میں بڑی طاقتوں کی یہ مداخلت غیر معمولی ہے۔ طویل عرصے سے، امریکہ اور چین دونوں میں تقریباً اتفاق رائے تھا کہ بھارت کو اپنے پڑوس میں اپنا تسلط رکھنا چاہیے۔ واشنگٹن کے ذرائع نے یہ بتانے سے کبھی گریز نہیں کیا کہ اگر بھارت کھٹمنڈو میں معاملات کو کنٹرول کرتا ہے تو وہ ان کے مفاد کو پورا کرے گا۔

مختصراً، چین نے بھارت کو یہ باور کرایا کہ نیپال کے معاملات میں اس کی مداخلت چین کے لیے تب تک باعث پریشانی نہیں ہے جب تک کہ چین کے مفادات محفوظ رہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بھارت کی سرزمین تبتی بدھسٹ پناہ گزینوں کی چین مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہو۔ تاہم کے پی شرما اولی کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کھٹمنڈو اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات خراب ہونے کے بعد چیزیں ڈرامائی طور پر بدل گئیں۔

وزیر اعظم مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت کو ہمالیائی ملک میں آئے تباہ کن زلزلے کے بعد مقامی لوگوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس حکومت نے بازآبادکاری کے کام میں ضرورت سے زیادہ کریڈٹ لینے کی کوشش کی جسے نیپال کے تشخص کے منافی سمجھا گیا۔ علاوہ ازیں مودی کے اس منصوبے کو بھی ماؤنواز قیادت نے سردمہری کے ساتھ مسترد کیا کہ وہ ہندوؤں کی علامتی تاریخ میں نیپال کو بھی نتھی کرے۔

یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے چند بدقسمت واقعات کے بعد دونوں پڑوسیوں کے درمیان دشمنی میں اضافہ دیکھنے میں آیا، بھارت نے مدھیسی علاقے میں مظاہرین کا ساتھ دیا جنہوں نے تیل، کھانا پکانے کی گیس اور دیگر سامان لے جانے والی سڑک کو بلاک کیا تھا۔ اس اقدام نے نیپالیوں کی نفسیات کو بری طرح سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا جنہوں نے اب شعوری طور پر بھارت پر اپنا انحصار کم کرنا شروع کر دیا ہے۔

تعلقات کی اس خستہ حالی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، چینیوں نے ماؤسٹوں-پرچنڈا اور کے پی شرما اولی کے درمیان اتحاد قائم کیا۔ ان کی جارحانہ سفیر نے خود کو نیپال میں اس حد تک مصروف رکھا کہ وہ سیاسی جوڑ توڑ کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ ماضی میں یہ درجہ اور اعزاز صرف کٹھمنڈو میں مقیم بھارتی سفیر کو ہوا کرتا تھا لیکن چینیوں نے ہمیں اس کھیل میں شکست دی، یہ تاثر تھا ایک ریٹائرڈ سفارت کار کا۔

بھارت نے خدشہ ظاہر کیا کہ نیپال نے چین کی سرمایہ کاری کے ایک وسیع منصوبے یعنی بیلٹ اینڈ روڑ انیشیٹیو (بی آر آئی) کے ساتھ کس طرح شمولیت اختیار کی۔ تاثر یہ تھا کہ چین کا ریلوے نیٹ ورک بالآخر بھارت تک رسائی حاصل کرے گا اور یوں یہ قابل عمل ہو جائے گا۔ نئی دہلی نے بی آر آئی کے ساتھ جڑنے سے انکار کر دیا تھا، اور یہ اس کے لیے شرمناک اور پریشان کن تھا جب اس کے قریبی اتحادی اور پڑوسی، نیپال نے اس اقدام کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔

جب اولی کو معزول کیا گیا اور دیوبا کی حکومت قائم کی گئی تو ان کی حکومت نے ملینیم چیلنج کارپوریشن یا ایم سی سی کے ساتھ وابستہ ہونے کی حامی بھری۔ یہ منصوبہ بی آر آئی کا متبادل بتایا جارہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نئی حکومت اپنے آپ کو کیسے چلائے گی؟ کیا یہ چین کی حامی ہوگی اور بھارت اور امریکہ کی مخالفت کرے گی؟ کٹھمنڈو میں تبدیلی سے بہت پہلے، ایسی خبریں آئی تھیں کہ آر ایس ایس کے مصالحت کار کے پی شرما اور پرچنڈا کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔ شرما ماؤ نواز ہونے کے باوجود ہندو رسومات میں حصہ لے رہے تھے۔ اگر یہ واقعی سچ ہے، تو پھر سازش کے اس کاک پٹ سے مزید حیرت انگیز خبروں کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔

نئی دہلی: بھارت کے لیے یہ خبر انتہائی پریشان کن اور حیرت زدہ کرنے والی تھی کہ پڑوسی ملک نیپال میں پشپا کمل دہل یا پرچنڈا (خوفناک شخص) نے شیر بہادر دیوبا کی زیر قیادت نیپالی کانگریس اتحاد کو چھوڑ کر کے پی شرما اولی کی قیادت میں سی پی این (یو ایم ایل) کے ساتھ دوبارہ ہاتھ ملاکر ہمالیائی ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے باگ ڈور سنبھالی۔ کھٹمنڈو میں ایک سابق بھارتی سفیر نے دعویٰ کیا کہ یہ بھارت کے لیے ایک دھچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ بھارت پڑوسی ملک میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔

جب سے انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا گیا جس میں کسی بھی اتحاد کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی، یہ نیپال میں شدید بحث کا موضوع تھا، جس کی بازگشت دہلی میں بھی سنائی دی کہ آخر کیوں کھٹمنڈو میں بھارت اپنا اثر و رسوخ کھو رہا ہے؟ درحقیقت، امریکہ اور چین قیادت کے انتخاب کے لیے اثر و رسوخ استعمال کرتے ہیں، نہ کہ نئی دہلی۔ پرچنڈا کے وزیر اعظم کے طور پر انتخاب نے کیا واقعی چین نے امریکہ اور بھارت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے؟

اگرچہ یہ بہت سے لوگوں کے لیے عیاں ہے کہ پچھلے چند مہینوں میں ہونے والی سرگرمیوں سے پتہ چلتا ہے کہ اولی سے جڑے لوگوں اور پرچنڈا کو بھارتی ایجنسیوں اور راشٹریہ سویم سیوک نے کافی حد تک ملائم کردیا ہے، آر ایس ایس کھٹمنڈو میں بہت سرگرم ہے۔ یاد رہے کہ 2015 میں اس وقت کے بھارتی سکریٹری خارجہ ایس جے شنکر نے نئے سیکولر آئین کے اطلاق پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔

اس وقت کی نیپالی حکومت، جس کی قیادت ماؤسٹ کر رہے تھے، نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں ملک کو 'ہندو ریاست' قرار دینے پر آمادہ کیا جا رہا ہے، جسے انہوں نے سرے سے مسترد کر دیا۔ اس کے سامنے، نئی دہلی واقعتاً اس اچانک تبدیلی کی توقع نہیں کر رہا تھا اور وہ اس پر مطمئن تھی کہ اسے دیوبا کی قیادت میں ایک ایسا اتحاد دستیاب ہوا ہے جس میں پرچنڈا کی زیر قیادت کیمونسٹ پارٹی کا ایک گروپ، مغرب نواز راشٹریہ سوتنترا پارٹی اور دربار نواز پرجا تنترا پارٹی شامل ہیں جو بظاہر چین حامی کے پی اولی کی قیادت والے اتحاد کا قلع قمع کرنے کا مؤجب بن سکتا ہے۔

نیپال، جو خطے میں سازشوں اور طاقت کے کھیل کا ایک کاک پٹ ہے، نے نئی دہلی میں اس وقت بے چینی پھیلائی تھی جب واضح طور پر بھارت مخالف، شرما وزیر اعظم تھے۔ انتخابی نتائج ایک غیر واضح پیغام دیتے ہیں کہ بحری رابطوں سے عاری اس ملک میں طاقت کے توازن میں تبدیلی آئی ہے اور اب یہاں امریکہ شو چلا رہا ہے۔

اس تاثر کو اس حقیقت سے تقویت ملی کہ ایک نئی مغرب نواز پارٹی جس کی سربراہی ایک ٹی وی اینکر، رابی لامیچن کر رہے تھے، نہ صرف 20 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی بلکہ ایک کنگ میکر کے طور پر بھی ابھری۔ اس کے علاوہ، امریکی سفیر بظاہر چین نواز گروپ بندی کو دور رکھنے کے لیے ایک اتحاد کو قائم کرنے کی کوشش میں کافی مصروف تھے۔

پرچنڈا کی قیادت میں نئی حکومت میں، لامیچن، جن کی پارٹی نے بدعنوانی سے لڑنے کے معاملے پر الیکشن لڑا، ملک کے نائب وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ہیں۔ وہ نیپالیوں کی ایک ایسی نسل کی نمائندگی کرتے ہیں جس کا بھارت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ مغرب سے متاثر ہیں اور ان کی قربت کے خواہشمند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مبصرین کا دعویٰ ہے کہ لامیچن کے حمایتی طاقتور ہیں۔

نیپال کے مبصرین کے مطابق، نیپال کے معاملات میں بڑی طاقتوں کی یہ مداخلت غیر معمولی ہے۔ طویل عرصے سے، امریکہ اور چین دونوں میں تقریباً اتفاق رائے تھا کہ بھارت کو اپنے پڑوس میں اپنا تسلط رکھنا چاہیے۔ واشنگٹن کے ذرائع نے یہ بتانے سے کبھی گریز نہیں کیا کہ اگر بھارت کھٹمنڈو میں معاملات کو کنٹرول کرتا ہے تو وہ ان کے مفاد کو پورا کرے گا۔

مختصراً، چین نے بھارت کو یہ باور کرایا کہ نیپال کے معاملات میں اس کی مداخلت چین کے لیے تب تک باعث پریشانی نہیں ہے جب تک کہ چین کے مفادات محفوظ رہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بھارت کی سرزمین تبتی بدھسٹ پناہ گزینوں کی چین مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہو۔ تاہم کے پی شرما اولی کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد کھٹمنڈو اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات خراب ہونے کے بعد چیزیں ڈرامائی طور پر بدل گئیں۔

وزیر اعظم مودی کی قیادت میں بھارتی حکومت کو ہمالیائی ملک میں آئے تباہ کن زلزلے کے بعد مقامی لوگوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس حکومت نے بازآبادکاری کے کام میں ضرورت سے زیادہ کریڈٹ لینے کی کوشش کی جسے نیپال کے تشخص کے منافی سمجھا گیا۔ علاوہ ازیں مودی کے اس منصوبے کو بھی ماؤنواز قیادت نے سردمہری کے ساتھ مسترد کیا کہ وہ ہندوؤں کی علامتی تاریخ میں نیپال کو بھی نتھی کرے۔

یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے چند بدقسمت واقعات کے بعد دونوں پڑوسیوں کے درمیان دشمنی میں اضافہ دیکھنے میں آیا، بھارت نے مدھیسی علاقے میں مظاہرین کا ساتھ دیا جنہوں نے تیل، کھانا پکانے کی گیس اور دیگر سامان لے جانے والی سڑک کو بلاک کیا تھا۔ اس اقدام نے نیپالیوں کی نفسیات کو بری طرح سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا جنہوں نے اب شعوری طور پر بھارت پر اپنا انحصار کم کرنا شروع کر دیا ہے۔

تعلقات کی اس خستہ حالی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، چینیوں نے ماؤسٹوں-پرچنڈا اور کے پی شرما اولی کے درمیان اتحاد قائم کیا۔ ان کی جارحانہ سفیر نے خود کو نیپال میں اس حد تک مصروف رکھا کہ وہ سیاسی جوڑ توڑ کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ ماضی میں یہ درجہ اور اعزاز صرف کٹھمنڈو میں مقیم بھارتی سفیر کو ہوا کرتا تھا لیکن چینیوں نے ہمیں اس کھیل میں شکست دی، یہ تاثر تھا ایک ریٹائرڈ سفارت کار کا۔

بھارت نے خدشہ ظاہر کیا کہ نیپال نے چین کی سرمایہ کاری کے ایک وسیع منصوبے یعنی بیلٹ اینڈ روڑ انیشیٹیو (بی آر آئی) کے ساتھ کس طرح شمولیت اختیار کی۔ تاثر یہ تھا کہ چین کا ریلوے نیٹ ورک بالآخر بھارت تک رسائی حاصل کرے گا اور یوں یہ قابل عمل ہو جائے گا۔ نئی دہلی نے بی آر آئی کے ساتھ جڑنے سے انکار کر دیا تھا، اور یہ اس کے لیے شرمناک اور پریشان کن تھا جب اس کے قریبی اتحادی اور پڑوسی، نیپال نے اس اقدام کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا۔

جب اولی کو معزول کیا گیا اور دیوبا کی حکومت قائم کی گئی تو ان کی حکومت نے ملینیم چیلنج کارپوریشن یا ایم سی سی کے ساتھ وابستہ ہونے کی حامی بھری۔ یہ منصوبہ بی آر آئی کا متبادل بتایا جارہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ نئی حکومت اپنے آپ کو کیسے چلائے گی؟ کیا یہ چین کی حامی ہوگی اور بھارت اور امریکہ کی مخالفت کرے گی؟ کٹھمنڈو میں تبدیلی سے بہت پہلے، ایسی خبریں آئی تھیں کہ آر ایس ایس کے مصالحت کار کے پی شرما اور پرچنڈا کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے۔ شرما ماؤ نواز ہونے کے باوجود ہندو رسومات میں حصہ لے رہے تھے۔ اگر یہ واقعی سچ ہے، تو پھر سازش کے اس کاک پٹ سے مزید حیرت انگیز خبروں کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔

Last Updated : Dec 31, 2022, 6:36 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.