نیتی آیوگ نے ڈھائی سال قبل خبردار کیا تھا کہ ملک کی مجموعی آبادی کے 60 فیصد کو پانی کی قلت کے بحران کا سامنا ہے جبکہ سال 2030ء تک پانی کے استعمال کی ضرورت میسر پانی کے مقابلے میں دگنی ہوجائے گی۔ آیوگ کی ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ ملک میں ستر فیصد آبی وسائل آلودہ ہو چکے ہیں اور اس کی وجہ سے ہر سال دو لاکھ انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ آیوگ نے اس تحقیق میں یہ بھی پایا کہ اس صورتحال کے نتیجے میں ملک کے جی ڈی پی کو چھ فیصد کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
اقتدار میں آنے کے فوراً بعد وزیر اعظم مودی نے ملک کے دیہات میں موجود سرپنچوں کے نام ایک ذاتی خط لکھا۔ بارہ زبانوں میں لکھے گئے اس خط میں بارش کے پانی کو بچانے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ حال ہی میں اُنہوں نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ پانی کے تحفظ کے لئے شروع کی گئی سو دن کی مہم کا حصہ بنیں۔
اپنی تازہ ’من کی بات‘ میں وزیر اعظم نے کہا کہ جل شکتی وزارت اس طرح کی ’پانی بچاو‘ مہم شروع کررہی ہے۔ مودی کا یہ پیغام واجپئی کی اُس مہم کی یاد دلاتا ہے، جو اُنہوں نے سال 2003ء میں شروع کی تھی۔
تیلگو کی سرزمین یعنی آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں پانی کی حفاظت کے لئے چلائی گئی مہم، ’جل یاگنم موومنٹ‘ نے پورے ملک میں پانی کے تحفظ کے حوالے سے بیداری پیدا کی تھی اور اُس وقت کے وزیر اعظم واجپائی نے عوام کو دریاوں، آبپاشی کے ذخائر اور تالابوں کی حفاظت کرنے کی مہم میں حصہ لینے پر زور دیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ سائنسی شعبے سے جڑے لوگ پانی کے تحفظ کے لئے کم قیمت کی ٹیکنالوجی متعارف کرائیں۔ تاہم اس ضمن میں ایکشن پلان کو آگے نہ بڑھائے جانے کی وجہ سے قیمتی آبی ذخائر نظر انداز ہوگئے اور نتیجے کے طور پر اب ہر سو خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسموں کے حوالے سے غیر یقینیت پیدا ہوگئی ہے اور اس کے نتیجے میں سیلاب آتے رہتے ہیں اور وہ علاقے بھی مزید متاثر ہوجاتے ہیں، جن میں پہلے سے ہی پانی کی قلت موجود ہے۔ یہ مسئلہ صرف اُس صورت میں حل ہوسکتا ہے، جب لوگ متحد ہوکر اور ایک عزم کے ساتھ تبدیلی کےلئے اُٹھ کھڑے ہوجائیں گے۔
بھارتی زبانوں میں ایسے محاورے اور اقوال کثرت سے موجود ہیں، جن میں آبپاشی کے ذخائر اور پانی کے دیگر وسائل کو صاف و شفاف رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ پانی کے تحفظ کے حوالے سے بیداری قدیم زمانوں سے ہی رہی ہے۔
بھارت میں دُنیا کی مجموعی آبادی کا اٹھارہ فیصد رہ رہا ہے۔ دُنیا میں موجود مویشیوں کا بھی اٹھارہ فیصد بھارت میں ہے۔ لیکن یہاں دُنیا میں پائے جانے والے پینے کے پانی کے وسائل کا محض چار فیصد موجود ہیں۔ پانی کے بالائے زمین وسائل کی تباہی اور زیر زمین پانی کے غلط استعمال کے نتیجے میں یہاں ہر گزرنے والے سال کے ساتھ پانی کی قلت شدید ہوتی جارہی ہے۔
ستر فیصد بارشیں سو دن کے اندر اندر گرتی ہیں اور سال کے باقی حصے میں پانی کی قلت پیدا ہوجاتی ہے۔ ہمارے ملک میں بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کا نظام موجود نہیں ہے اور نتیجے کے طور پر ملک میں پانی کی ایک شدید قلت پیدا ہورہی ہے۔
چند دہائیاں قبل تک ہمارے ملک میں فی کس کے لئے پانچ ہزار کیوبک میٹر پانی دستیاب رہتا تھا۔ اب یہ شرح گھٹ کر 1486 کیوبک میٹر فی کس ہوگئی ہے۔ سال 2031ء تک یہ شرح مزید کم ہوکر فی کس 1367 کیوبک میٹر ہوجائے گی۔ نہ صرف پانی کی مقدار گھٹ رہی ہے بلکہ دستیاب اس کا معیار بھی متاثر ہورہا ہے۔
لوگوں کو چاہیے کہ وہ صورتحال کو بہتر بنانے کےلئے کسی اور کے کردار نبھانا کا انتظار کرنے کا رویہ ترک کریں۔ بھارت کو سالانہ چار لاکھ کروڑ کیوبک میٹر بارش دستیاب ہوجاتی ہے۔ تاہم یہ اس میں سے محض ایک چوتھائی کو ہی استعمال کر پارہا ہے۔ اگر بھارت حکمت عملی کے ساتھ مرتب منصوبے کے تحت دو لاکھ کروڑ کیوبک میٹر بارشوں کو ہی محفوظ بنا پائے تو پانی کی دستیابی کے حوالے سے یہ خود انحصار ہوجائے گا۔
اسرائیل کو بھارت کے مقابلے میں محض ایک چوتھائی بارش کا پانی دستیاب ہوجاتا ہے۔ لیکن اس نے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے خطرناک صورتحال سے دوچار ہوجانے سے خود کو بچالیا ہے۔ بھارت کو اسرائیل سے سکیھنے کی ضرورت ہے۔ ملک کے ہر شہری کو پانی کے تحفظ کےلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ملک میں پانی کی فراوانی اور بہتر کاشت درکار ہے تو پانی کے تحفظ کے لئے ایک عوامی تحریک چلانا ناگزیر ہے۔