بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی حکومت میں بھارت ’جمہوریت‘ کے معاملے میں پیچھے ہوتا جا رہا ہے۔ جمہوری آزادی میں نہ صرف بھارت پیچھے ہو رہا ہے بلکہ بھارت نے ایک عالمی جمہوریت کے قائد کا راستہ بدل کر ایک شدت پسند ہندو مفاد والے ملک کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ کہنا ہے جمہوری ادارہ ’فریڈم ہاؤس‘ کا، جس نے بھارت کی رینکنگ ’آزاد ملک‘ سے گھٹا کر ’جزوی آزاد ملک‘ کی شکل میں کی ہے۔
سب سے زیادہ 100 آزاد ممالک کی درجہ بندی میں بھارت کی رینکنگ کم ہوکر 71 سے 67 ہوگئی، وہیں، اس کا درجہ 211 ممالک میں 83 سے 88 ہوگیا ہے۔
خیال رہے کہ ’فریڈم ہاؤس‘ امریکہ کا ایک آزاد ڈیموکریسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ہے۔ اپنی رپورٹ میں اس ادارہ نے کہا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات، صحافیوں کو دھمکیاں دینے اور استحصال کے واقعات اور بہت زیادہ عدالتی مداخلت کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان سب میں تیزی سنہ 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت آنے کے بعد آئی ہے۔
’فریڈم ہاؤس‘ کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’بھارت نے دنیا میں جمہوری عمل اختیار کرنے والے ممالک کے طور پر اپنا رتبہ بدل کر چین جیسے ممالک کی طرح ایک تاناشاہی رخ اختیار کرلیا ہے۔ نریندر مودی اور ان کی پارٹی نے بھارت کو ایک آمرانہ ملک کی شکل میں بدل دیا ہے۔‘
ادارہ نے کورونا بحران کے دوران بغیر کسی تیاری کے نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن پر بھی تنقید کی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس لاک ڈاؤن کے سبب لاکھوں مزدوروں اور محنت کشوں کے سامنے روزی روٹی کا بحران کھڑا ہوگیا اور انھیں سیکڑوں میل پیدل چل کر اپنے گاؤں تک جانا پڑا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوتوا پسند قوم پرستوں نے کورونا انفیکشن کے لیے غلط طریقے سے مسلمانوں کو ’بلی کا بکرا‘ بنایا جس کے باعث انھیں مشتعل بھیڑ کا نشانہ بننا پڑا۔