ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکر پٹیل نے عمر خالد کی ضمانتی عرضی مسترد کیے جانے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ' جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق رہنما اور طالب علم عمر خالد کی ضمانتی عرضی کو ایک بار پھر مسترد کیا گیا۔ امتیازی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف پر امن احتجاج کرنے پر ان کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج ہے۔'
بار بار عمر خالد کی ضمانتی عرضی مسترد کرنا ملک میں اظہار آزادی اور پرامن احتجاج کے اپنے حقوق کا استعمال کرنے والے ہر فرد کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے۔ عمر خالد کو 18 ماہ سے زائد عرصے تک مسلسل حراست رکھنا تنقیدی آوازوں کے لیے تیزی سے سکڑتی ہوئی جگہ کے پس منظر میں آتی ہے اور ہر اس شخص کے لیے ایک مثال قائم کرتی ہے جس کے خیالات سے حکام متفق نہیں ہیں۔'
یو اے پی اے کے تحت خالد کی مسلسل نظربندی بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون اور معیارات کے بالکل خلاف ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا نے بھارتی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خالد اور دیگر تمام انسانی حقوق کے کارکنان کو فوری طور پر اور غیر مشروط طور پر رہا کریں جو صرف اپنی مخالفت کا اظہار کرنے اور سی اے اے کے خلاف پرامن احتجاج کرنے پر من مانی طور پر حراست میں لیے گئے ہیں۔'
واضح رہے کہ دہلی کی ایک عدالت نے آج عمر خالد کی ضمانت کی عرضی کو مسترد کردیا۔ اس سے قبل عدالت نے فیصلہ کو تین بار ملتوی کردیا تھا۔ گذشتہ روز ضمانت کی درخواست کے حکم کو تیسری بار ملتوی کیا گیا تھا۔ جج نے فیصلہ ملتوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ فیصلہ کی اصلاح کی جارہی ہے۔
عمر خالد ستمبر 2020 سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور اس وقت دہلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ دہلی کی کڑکڑڈوما عدالت نے آج جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد کو 2020 کے شمال مشرقی دہلی فسادات سے متعلق ’گہری سازش‘ کیس میں ضمانت دینے سے انکار کردیا۔ ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے خالد اور استغاثہ کی طرف سے پیش ہونے والے وکلا کے دلائل سننے کے بعد 3 مارچ کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ دلائل کے دوران ملزم نے عدالت کو بتایا تھا کہ استغاثہ کے پاس جرم ثابت کرنے کے لیے مناسب شواہد کی کمی ہے۔
دہلی فسادات کیس میں عمر خالد کو دہلی پولیس نے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام ایکٹ کے تحت کئی دیگر ملزمان کے ساتھ گرفتار کیا تھا۔ خالد کے خلاف تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی کئی دفعات کے تحت بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے، جس میں 124-A (غداری)، 120-B (مجرمانہ سازش)، 420 (دھوکہ دہی) اور 465 (جعل سازی) شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: