مقامی کاؤنسلر حاجی اسرار بیگ مرزا نے کہا کہ گجرات سرکار کی نہ جانے کیا مجبوری ہے، جو گیتا کا پاٹھ پڑھانے کی ضرورت اسکولوں میں پڑ رہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی تو خیر سگالی کی بات کرتے ہیں ایک ہاتھ میں قرآن اور ایک ہاتھ میں کمپیوٹر ہونے کی بات کرتے ہیں تو کیوں صرف گیتا کو اسکولوں میں پڑھانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ اگر حکومت گیتا کو اسکولوں میں پڑھانا چاہتی ہے تو دوسرے مذاہب کے مقدس کتابوں کی بھی تعلیم نصاب میں شامل کرنی چاہیے اور معصوم بچوں کو مذہبیت سے پرے رکھ کر انسانیت و اخلاق کا پیغام دینے والی تعلیم دینی چاہیے۔ سرکار کو بھگوت گیتا کو نصاب میں شامل کرنے کے فیصلے کے بارے میں دوبارہ سوچنا چاہیے۔
وہیں سابق ٹیچر ایوب پٹھان نے کہا کہ نصاب میں حکومت کو ایسی چیزیں لانی چاہیے کہ جس سے وہ دوسرے ملک کے مقابلے میں کھڑے رہ سکے۔ ایک طرف ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ ہم ہندوستان کو ایک ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں جو سارے ممالک کا گرو بن جائے تو یہ گیتا پاٹھ کی مذہبی چیزیں ایجوکیشن میں لاکر آپ کس طرح سے ملک کو ترقی پر لے جائں گے۔ ہمارے بچوں کو تمام مذاہب کی کتاب کی تعلیم نصاب میں لایا جائے نہ کہ صرف ایک مذہب کی۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوون کو خوش کرنے کے لیے، ووٹ بینک مضبوط بنانے کے لیے اور اپنی کرسی کو بچانے کے لیے حکومت یہ سیاست کا کھیل کھیل رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: