بھارت کے مشہور اولیاء حضرت شاہ عالم سرکار کا مقبرہ احمدآباد کے شاہ عالم علاقے میں واقع ہے، جسے عام طور سے حضرت شاہ عالم سرکار کی درگاہ کے نام سے چانا جاتا ہے۔
آپ کا نام محمد یا شاہ منجھن تھا، لقب سراج الدین اور شاہ عالم تھا۔ مرات جلالی کے مطابق آپ کا نام سراج الدین محمد تھا۔ آپ قطب العالم سید برہان الدین بخاریؒ کے منجھلے صاحبزادے تھے۔ آپ پندرہویں صدی کے آغاز میں احمد شاہ اول کے دور میں گجرات پہنچے اور گجرات کے احمدآباد شہر میں آباد ہو گئے تھے۔
آپ کی ولادت 17 دی قعدہ 817 ہجری میں ہوئی تاہم 63 برس کی عمر میں 22 جمادی الاخر 880 ہجری مطابق 1475 میں وفات پائی تھی۔
آپ کے مقبرے کی تعمیر تاج خان نارپلی نے کی تھی جسے آج حضرت شاہ عالمؒ کے روضہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس تعلق سے حضرت شاہ عالم درگاہ کے خادم صوبہ خان پٹھان نے بتایا کہ پندرہویں صدی میں حضرت شاہ عالم سرکار کی درگاہ و مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ بہادر شاہ ظفر کے بیٹے تاج خان نارپلی نے اسےتعمیر کرایا تھا۔
انہوں نے یہاں پر خوبصورت مسجد و منارے تعمیر کرائے اور خود تاج خان نارپلی یہاں قبرستان میں دفن ہیں۔ 626 سال حضور شاہ عالم سرکار کے دربار کو ہو چکے ہیں، آج بھی یہاں بڑی تعداد میں عقیدت مندوں کا ازدہام رہتا ہے۔
واضح رہے کہ سترہویں صدی کے اوائل میں نور جہاں کے بھائی آصف خان نے شاہ عالم درگاہ کے گنبد کو سونے کے قیمتی پتھروں سے سجایا تھا۔ شاہ عالم کا مقبرہ روضہ کے مشرقی سرے کے وسط میں واقع ہے۔ یہ مقبرہ ایک مربع پر محیط ہے جس کے ساتھ چھتوں کے درمیان 12 ستون اور اونچے گنبد ہیں۔ اس کے چاروں طرف محراب نما دروازہ ہے اور پوری درگاہ میں خوبصورت نقاشی کا کام کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ حضرت شاہ عالم سرکار کے مقبرے کے مغرب میں ایک شاندار مسجد ہے جو محمد صلاح بدخشی نے تعمیر کی تھی اور اس مسجد کے دونوں جانب خوبصورت مینارے بنے ہوئے ہیں، 1819 کے زلزلے میں مسجد کے میناروں کے کچھ حصے کو نقصان پہنچا تھا لیکن وہ 1863 میں دوبارہ بحال کردیے گئے تھے۔
مزید پڑھیں: حضرت شاہ عالم سرکار کی درگاہ عقیدت مندوں کے لیے کھولی گئی
اسی مسجد میں دو تخت لٹکے ہوئے نظر آتے ہیں جس کے بارے میں مقامی مولانا محمد امام الدین فیضی نے بتایا کہ حضرت شاہ عالمؒ بہت بڑے عالم دین اور پائے کے ولی تھے اور آپ بچوں کو علم دین کی تعلیم دیتے تھے۔
ایک مرتبہ جب حضرت شاہ عالم سرکار بیمار ہو گئے تب آپ کی شکل میں حضور پاک آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو درس و تدریس اسی تخت پر بیٹھ کر دیا کرتے تھے، جب اس واقع کا علم حضرت شاہ عالم کو ہوا تو ویسے ہی انہوں نے اس تخت کو مسجد میں ضم کردیا۔
اس کے بعد حضرت شاہ عالم سرکار نے اپنے لیے دوسرا تخت بنوایا۔ آپ کے وصال کے بعد اس تخت کو بھی مسجد میں ضإ کردیا گیا اور آج بھی وہ دونوں تخت مسجد میں لٹکے لوئے ہیں اور ہر عقیدت مند آکر اسے چومتا ہے اور اپنی مراد پاتا ہے۔