شیوسینا کے ترجمان اخبار سامنا میں مزید لکھا گیا ہے کہ یہ لڑائی تمام لوگ مل کر لڑ رہے ہیں یہ سچ ہے، لیکن اس کے آغاز سے پہلے مرکز نے حفظِ ماتقدم کے طور پر کچھ چیزوں کی تیاری پہلے ہی کرلی ہوتی نیز اگر ماہرین کی جانب سے دی جانے والی وارننگ کو سنجیدگی سے لیا جاتا تو آج کورونا وائرس کی وجہ سے ملک کی عوام کے لیے جو نازک صورتِ حال بنی ہوئی ہے وہ مختلف ہوتی۔
اخبار سامنا نے مزید لکھا ہے کہ اب کورونا کی دوسری لہر میں ہمارے ملک کا صحت کا نظام بری طرح سے متاثر ہوا ہے، حال یہ ہے کہ اسپتالوں میں بیڈس کی کمی کے ساتھ ساتھ آکسیجن کی بھی کمی ہے جس کی وجہ سے متاثرہ مریض اسپتالوں کے باہر ہی دم توڑ رہے ہیں۔ یہ سارے خوفناک مناظر ہیں جو ملک کی عوام صبح و شام اخبارات اور میڈیا کے ذریعہ دیکھ رہی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ مستقبل میں کورونا سونامی کے پھیلاؤ کی شدت کو روکنے میں مددگار ثابت ہو۔ مگر ان سب کے باوجود کورونا کی دوسری لہر کی تباہی کی وجہ سے جو لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے وہ نہ تو واپس آسکیں گے اور نہ ہی ان کے تباہ حال کنبے بحال ہوسکیں گے۔
اخبار سامنا آگے مزید لکھتا ہے کہ واشنگٹن کے انسٹی ٹیوٹ برائے ہیلتھ میٹرکس اور تشخیص کی امریکہ میں قائم یونیورسٹی کی لرزا دینے والی رپورٹ سامنے آئی ہے جس کے مطابق مئی کے مہینے میں بھارت میں کورونا مریضوں کی شرح اموات روزانہ 5000 سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ 12 اپریل سے یکم اگست کے درمیان ملک میں کورونا کی دوسری لہر سے متاثر ہوکر مرنے والوں کی تعداد 3 لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اب مرکزی حکومت کو واشنگٹن کے اس ادارے کے ذریعہ دیے گئے انتباہ کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے حفاظتی اقدامات کی تیاریاں شروع کردینا چاہئے۔