اننت ناگ: وادی کشمیر میں چنار کے درخت کو شاہی درخت کے طور پر تصور کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ مانا جاتا ہے کہ وادی کشمیر میں چنار کا پہلا پودا 1586ء میں مغلوں کے دور سلطنت میں ایران سے لاکر یہاں لگایا گیا تھا۔ بعض محققین کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر میں سب سے پہلے چنار کا درخت 1374ء میں پایا گیا تھا۔ اسلئے صدیوں سے موجود چنار کا درخت کشمیر کی شناخت کا حصہ بن چکا ہے۔ موسم گرما میں جہاں لوگ سرسبز اور گھنے چنار کے سایہ میں بیٹھ کر سکون و راحت حاصل کرتے ہیں، وہیں موسم خزاں میں اس کے سنہرے پتے دیکھنے والوں پر سحر طاری کرتے ہیں، چنار کے درخت کا یہاں کی سیاحت سے بھی خاص تعلق ہے کیونکہ چنار کے درختوں سے لبریز یہاں کے مغل باغات کی سیرو تفریح کے لئے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی ایک بڑی تعداد وارد ہوتی ہے، لیکن افسوس کہ دور حاضر میں چنار ترقیاتی منصوبوں کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ سرکاری عمارتوں، سڑکوں کی کشادگی، ہوٹلوں، تجارتی مراکز اور دیگر تعمیرات یا کسی اور بہانے سے چنار کے درختوں کو کاٹا جارہا ہے، جس کے خلاف مقامی لوگ اور ماہرین ماحولیات نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور موجودہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا اور اس کے مستقبل وجود کے بارے میں کافی فکر مندی ظاہر کی۔ انہیں خدشہ ہے کہ کہیں وادی میں چنار کے درخت کا وجود ہی ختم نہ ہوجائے۔ ان کا کہنا ہے کہ چنار سے نہ صرف وادی کشمیر کی شناخت جڑی ہوئی ہے بلکہ اس کے خاتمے سے سیاحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
مزید پڑھیں:۔ کشمیر، موسم خزاں کی جھلکیاں
ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں لاکھوں سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے اس طویل قد و قامت والے درخت کی کٹائی جاری رہی، جو سیاحوں کے لئے مایوس کن ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے حکومت کو چنار کے درختوں کے تحفظ کو یقینی بنانے اور اس کی نئی شجرکاری کے لئے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنا چاہیے، تاکہ اس شاہی درخت کا مستقبل محفوظ ہو سکے۔ بتادیں کہ موسمِ خزاں میں اس کے پتوں کے بدلتے ہوئے رنگ ایسا نظارہ پیش کرتے ہیں جیسے درخت میں آگ لگ گئی ہو، اسی نظارے کو دیکھنے کے لئے سیاح وادی کشمیر کا رُخ کرتے ہوئے ہیں۔