قومی دارالحکومت دہلی کی ساکیت کورٹ نے 27 ہندو اور جین مندروں کو توڑ کر قطب مینار کے احاطے میں تعمیر قوت الاسلام مسجد پر دعوہ کرنے والی عرضی پر سنوائی کو ملتوی کردیا ہے۔ سول جج نیہا شرما نے سماعت کی تاریخ 27 اپریل متعین کی ہے۔
عدالت نے درخواست گزار سے یہ سوال کیا تھا کہ عقیدت کے طور پر عرضی داخل کرنے کا کیا جواز ہے۔ عدالت نے کہا تھا کہ یہ بھی وضاحت کی جائے کہ کیا اس معاملے میں عدالت ٹرسٹ کے قیام کا حکم دے سکتی ہے۔
سماعت کے دوران درخواست گزار ایڈووکیٹ ہری شنکر جین نے عدالت کو بتایا تھا کہ' اس معاملے میں کوئی تنازع نہیں ہے کہ مندروں کو مسمار کردیا گیا تھا۔ لہذا اسے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم آٹھ سو سے زیادہ سالوں سے اس طرح ہم ان حالات کے شکار ہیں اور ہم اب عبادت کے حق کا مطالبہ کر رہے ہیںٹ جو ہمارا بنیادی حق ہے۔
ہری شنکر جین نے کہا تھا کہ’ گذشتہ آٹھ سو برسوں سے وہاں نماز نہیں پڑھی جارہی ہے۔ بطور مسجد اس کا استعمال ہی نہیں ہو رہا ہے۔ مزید اس تعلق سے ہری شنکر جین نے اپنی حمایت میں لوہے کے ستون، بھگوان وشنو اور دیگر دیوتاؤں کا حوالہ دیا۔
سماعت کے دوران وکیل وشنو جین نے کہا تھا کہ' یہ باتیں بے حد افسوسناک ہیں۔ ملک و بیرون ملک کے لوگ وہاں پہنچتے ہیں جہاں ہمارے دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں بکھری ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'عدالت کو وہاں کسی انہدام کی یقین دہانی نہیں کرنی ہے۔ ہم صرف عبادت کا حق چاہتے ہیں۔'
مزید پڑھیں: کووڈ 19 ویکسینیشن سرٹیفکٹ سے ہٹے گی وزیر اعظم کی تصویر
تبھی جج نیہا شرما نے ان سے یہ پوچھا کہ آپ عبادت کے حق کا مطالبہ کررہے ہیں۔ فی الحال یہ جگہ اے ایس آئی کے قبضے میں ہے۔ اور دوسرے طریقے سے آپ اس زمین پر قبضہ کرنے کے خواہاں ہیں۔ جس پر ہری شنکر جین نے کہا تھا کہ' ہم زمین پر اپنی ملکیت نہیں مانگ رہے ہیں، ملکیت کے بغیر عبادت کا حق دیا جاسکتا ہے۔'