پلوامہ: وادی کشمیر میں محتلف خشک و رسیلے میوہ جات کی کاشتکاری ہوتی ہے، جس کے ذریعہ وادی کے کسان اپنا ذریعہ معاش حاصل کرتے ہیں۔ وہیں ان محتلف میوہ جات صنعت سے لاکھوں افراد بالواسطہ یا بلاواسطہ جڑے ہوئے ہیں، جو اس سے اپنا روزگار حاصل کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ میوہ صنعت جموں و کشمیر کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہے۔ اگرچہ پہلے سیب کے درختوں کو اگانے میں سات سے آٹھ سال لگتے تھے اور آٹھ سالوں کے بعد یہ پھل دینا شروع کرتے تھے لیکن بعد میں حکومت نے اس صنعت کو فروغ دینے لئے وادی میں ہائی ڈینسٹی پودے متعارف کرائے، جو دو سال کے درمیان ہی پھل دنیا شروع کر دیتے ہیں جبکہ ان سیبوں کی مانگ اور قیمت روایتی سیبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ جس کی وجہ سے وادی کے دیگر اضلاع کے ساتھ ساتھ ضلع پلوامہ کے کسانوں نے روایتی باغات کو ہائی ڈینسٹی باغات میں تبدیل کردیا۔ اس اسکیم کو کامیاب بنانے اور اس کو فروغ دینے کے لئے حکومت نے اس کو سبسڈی کے دائرے میں لایا تاکہ زیادہ سے زیادہ کسان ہائی ڈینسٹی اسکیم سے مستفید ہو سکیں۔
وہیں اب حکومت نے دیگر 11 میوہ جات کو بھی ہائی ڈینسٹی اسکیم میں لانے کا فیصلہ کیا ہے جن کے لئے وادی کے محتلف علاقوں میں کسان ہائی دینسٹی پودے لگا رہے ہیں۔ اس ضمن میں محمکہ باغبانی اس ہائی ڈینسٹی پودوں کو آگانے کے لئے کسانوں کو ہائی ٹیک گرین ہاؤس فراہم کر رہا ہے، جو محمکہ کی جانب سے سبسڈی پر دیا جارہا ہے۔ اس ضمن میں ضلع پلوامہ کے ترچھل علاقے سے تعلق رکھنے والے غلام رسول ڈار نے بھی محمکہ کی اس اسکیم کا فائد اٹھا کر اپنے علاقے میں ایک ہائی ٹیک گرین ہاؤس لگایا ہے، جہاں پر ہائی ڈینسٹی اخروٹ کے پودوں کو آگا کر کسانوں تک پہنچ رہے ہیں، اگرچہ یہ صنعت زوال پذیر ہونے لگی تھی لیکن ہائی ڈینسٹی پودوں کے آنے کی وجہ سے یہ صنعت دوبارہ زندہ ہونے کے امکان ہیں۔ وہیں آج کل پودے تیار کرنے کا کام عروج پر ہے۔
.
مزید پڑھیں:۔ Walnut Industry Crisis اخروٹ کی فصل میں اضافہ ہونے کے باوجود کاشتکار مایوس
اس سلسلہ میں غلام رسول نے کہا کہ ہمارے روایتی اخروٹ کے درحت زیادہ بڑے ہوتے تھے اور اخروٹ اتارنے کے دوران لوگ ان درختوں سے گر کر ہلاک بھی ہو جاتے تھے جبکہ یہ اخروٹ کے درخت چھوٹے رہیں گے اور ان سے اخروٹ اتارنا احسان ہوگا اور پھل بھی معیاری ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اخروٹ کی صنعت ختم ہوتی جارہی تھی لیکن اب ہائی دینسٹی پودے آنے کی وجہ سے یہ صنعت دوبارہ زند ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تک ہم نے تقریبا 30 ہزار پودے فروخت کرلے ہیں۔ اس سے ہمیں کافی منافع ہوا ہے۔ انہوں نے کہا محمکہ باغبانی نے نرسری کی جانب لوگوں کی توجہ مرکوز کرنے کے لئے اسکیم متعارف کرائی ہے، جس کے تحت یہ ہائی ٹیک گرین ہاؤس سبسڈی پر دیتے ہیں جو پودے اگانے میں کارگر ثابت ہورہا ہیں۔ اس ضمن میں محمکہ باغبانی کے ڈائریکٹر غلام رسول میر نے کہا کہ حکومت نے 11 مزید میوہ جات کو ہائی دینسٹی اسکیم میں لایا ہے، جس کے تحت کسانوں کو ان میوہ جات کو آگانے کے لئے ہائی دینسٹی پودے سبسڈی پر فراہم کئے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہائی ڈینسٹی نرسری قائم کرنے کے لئے سرکار سبسڈی دی رہی ہے جبکہ وادی میں کل نو نرسریاں قائم کی گئی ہیں جس میں سے ایک یہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے نوجوان روزگار کے ساتھ ساتھ ہائی ڈینسٹی پودوں کو آگاکر کسانوں تک پہنچا سکتے ہے اور اس کو فروغ بھی مل سکتا ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اخروٹ کی نرسری بنانے کے لئے حکومت کی جانب سے 7.50 لاکھ روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے جس کے لئے پانچ کنال اراضی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اج تک صرف سیبوں کی طرف توجہ مرکوز کی جاتی تھی لیکن اب حکومت نے دیگر میوہ جات کو بھی ہائی دینسٹی اسکیم میں لایا ہے اور اخروٹ کو فروغ دینے کے لئے ان نرسریوں کو قائم کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر ملکی سطح پر سب سے زیادہ اخروٹ کے پیدوار کے لئے جانا جاتا ہے، اس کو مزید فروغ دینے کے لئے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس صنعت سے جوڑنے کے لئے اس کو متعارف کرایا گیا ہے۔