ایک فلسطینی ڈاکٹر نے پیر کی شام اپنی تین بیٹیوں اور بھتیجی کی قبروں پر حاضری دی، جو 2009 کے اسرائیلی حملے میں ہلاک ہو گئیں تھیں۔
اس سے قبل پیر کے روز عزالدین ابو الیش نے اسرائیل کی سپریم کورٹ سے اپیل کی تھی کہ وہ فوج کے ذریعے ان ہلاکتوں کے لیے سرکاری معافی اور معاوضہ جاری کرنے کا حکم دے۔
13 سالوں سے ابو الیش انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں، جسے وہ اسرائیلی فوج کی ایک خوفناک غلطی قرار دیتے ہیں۔
2009 میں حماس کے عسکریت پسندوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے دوران ان کے غزہ کے گھر پر اسرائیلی ٹینک کے حملے میں ان کی تین بیٹیاں 14 سالہ آیا، 21 سالہ بیسان اور 15 سالہ مایار کے ساتھ ساتھ ان کی ایک بھتیجی 17 سالہ نور ہلاک ہوگئیں تھیں۔ اس دوران ان کی صرف ایک بیٹی کی جان بچ سکی لیکن وہ شدید طور پر زخمی ہوئی۔
فوج کا کہنا ہے کہ اس حملے کا مقصد علاقے میں عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانا تھا اور 2018 میں ایک نچلی عدالت نے بھی فوج کا ساتھ دیا۔
اب اسرائیلی سپریم کورٹ ابو الیش کی طویل التواء کی اپیل کی سماعت کر رہی ہے۔
قبرستان میں انہوں نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ سیاسی مقصد کے بجائے "سچ اور انصاف" پر مبنی ہونا چاہیے۔
عزالدین ابو الیش نے کہا کہ "ہم ججوں کے فیصلے اور عدالت کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ جلد از جلد کوئی مثبت فیصلہ آئے گا۔ اور میں نے ان سے یہی کہا ہے کہ دنیا ان کو دیکھ رہی ہے اور ان کی طرف سے جواب کا انتظار کر رہی ہے۔ لہٰذا انصاف انسانی ذمہ داری پر مبنی ہونا چاہیے، نہ کہ پروگرام شدہ، جھوٹی اور بے معنی سیاست پر۔ فیصلہ سچائی اور انصاف پر مبنی ہونا چاہیے، سیاسی مقصد پر نہیں۔"
ابو الیش اس سانحے کے بعد کینیڈا منتقل ہو گئے، جب یہ حملہ ہوا تو وہ اسرائیل میں ایک معروف شخصیت تھے۔
ہارورڈ سے تعلیم یافتہ ڈاکٹر اور امن کارکن غزہ کی پٹی میں رہتے ہوئے ایک اسرائیلی اسپتال میں کام کر چکے ہیں۔
2009 میں اسرائیل اور حمراس کے حمرانوں کے درمیان چار میں سے پہلی جنگ کے دوران وہ روانی سے عبرانی زبان میں اسرائیلی میڈیا کو لائیو اپ ڈیٹ دے رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینیوں کے قدیم قبرستان کو مسمار کرنے کے خلاف احتجاج
لیکن جب ان کے گھر کو نشانہ بنایا گیا تو، اسرائیل کے ایک ٹی وی اسٹیشن نے ایک روتے ہوئے ابو الیش کی طرف سے اسرائیلیوں کو لایئو رپورٹ فراہم کی۔
انہوں نے لائیوں کے دوران چیختے ہوئے کہا کہ "میری بیٹیوں کو مار دیا گیا ہے"۔
اس کے بعد پیر کو سپریم کورٹ نے سماعت بغیر کسی فیصلے کے ملتوی کر دی۔