ETV Bharat / bharat

گیا: پاکستانی پہلوان 'رستم زماں' سے جڑی کچھ یادیں

گاما ایک ایسے پہلوان تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کُشتی میں شکست نہیں کھائی۔ کہا جاتا ہے کہ بروسلی بھی گاما پہلوان سے متاثر تھے۔ اس نے گاما سے متاثر ہوکریہ فن سیکھا تھا۔ گاما پہلوان کو رستم ہند بنانے میں شہر گیا کے سیجووار اسٹیٹ کے مالک گووند جی سیجووار کا اہم کردار رہا ہے۔

ہیرا ناتھ
ہیرا ناتھ
author img

By

Published : Sep 9, 2021, 11:10 AM IST

بھارتی تاریخ کے عظیم پہلوان غلام محمد عرف گاما پہلوان کا ریاست بہار کے ضلع گیا سے گہرا لگاؤ رہا ہے۔ وہ کشتی کے اکھاڑے میں " دی گریٹ گاما" رستم زماں کے نام سے مشہور تھے۔

گاما ایک ایسے پہلوان تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی کُشتی نہیں ہاری۔ کہا جاتا ہے کہ بروسلی بھی گاما پہلوان سے متاثر تھے اور انہوں نے گاما سے متاثر ہوکر ہی یہ فن سیکھا تھا۔

گاما پہلوان کی یادیں

گاما پہلوان کو رستم زماں بنانے میں شہر گیا کے سیجووار اسٹیٹ کے مالک گووند جی سیجووار کا اہم کردار رہا ہے۔

انیسویں صدی کے شروع میں گاما پہلوان کا گیا سے قلبی اور پہلوانی کا رشتہ جڑ چکا تھا۔ وشنو پتھ مندر کے علاقہ میں واقع سیجووار اسٹیٹ کا وہ کُشتی کا اکھاڑا جہاں گاما پہلوان، غلام بخش پہلوان، اندھا پہلوان اور دوسرے مسلم پہلوانوں کی کُشتی ہوا کرتی تھی، وہ اکھاڑا آج بھی موجود ہے. یہاں گوند جی سیجووار کی تصویر کے ساتھ گاما پہلوان کی تصاویر موجود ہیں۔

گیا کے سیجووار اسٹیٹ میں عظیم پہلوان" گاما" پہلوان کے کشتی کا اکھاڑا آج بھی موجود ہے۔ سیجووار اسٹیٹ میں گاما پہلوان کی کشتی سے جڑی تمام یادیں محفوظ ہیں۔ گاما پہلوان تقسیم ہند کے وقت پاکستان چلے گئے تھے۔ تاہم آج بھی گیا میں ان کی کشتی کے شیدائی موجود ہیں۔ وشنو پتھ میں واقع سیجووار اسٹیٹ کے مالک نے کہا 'ہمارے آبا و اجداد نے جب مسلمانوں سے تفریق نہیں کی تو ہم کیسے کرسکتے ہیں۔

گوند جی سیجووار کے پوتے ہیرا ناتھ کہتے ہیں کہ گاما پہلوان کو ان کے دادا کی نگرانی میں تربیت دی گئی تھی۔ گوند جی کا وزن گاما پہلوان سے زیادہ تھا۔ چھ ماہ تک مسلسل ریہاں رہ کر گاما پہلوان نے کشتی کی ہے۔ گاما پہلوان کی غذائی ضروریات کی تکمیل کے لیے اس وقت لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے تھے۔

گیا سے ہی تکنیکی طور پر گاما پہلوان مضبوط ہوئے تھے اور جب انہوں نے کلکتہ میں کشتی میں شرکت کی اور بڑے بڑے پہلوانوں کو شکست دی تو وہیں، انہیں" رستم ہند‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔

تقسیم ہند کے دوران جب وہ بھارت چھوڑ کر جارہے تھے تب پٹیالہ کے مہاراج نے انہیں یہیں رہنے کی دعوت دی اور کہا کہ انہیں وہ سو بیگھا زمین بھی دیں گے۔ لیکن گاما پہلوان اپنے رشتے داروں کے پاکستان جانے کا حوالہ دے کر وہ یہاں سے ہجرت کر گئے۔ اس کے باوجود انہیں بھارت میں کافی اعزاز ملا۔

زندگی کے آخری ایام میں وہ مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ بھارت میں اس وقت ان کے رابطے میں رہنے والے افراد کو دلی تکلیف ہوئی تھی۔

بھارت کے بڑے صنعت کار برلا کی طرف سے اس وقت انہیں ہر ماہ تین سو روپے وظیفہ پاکستان بھیجا جاتا تھا تاکہ ان کی زندگی آسانی سے بسر ہوسکے۔

ہیرا ناتھ کہتے ہیں کہ بٹوارے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے تھے اس میں کافی چیزیں برباد ہوئی ہیں۔ تاہم سیجووار اسٹیٹ میں آج تک ان سے جڑی چیزیں محفوظ ہیں۔ گاما پہلوان تقسیم کے بعد جب بھی یہاں آئے تو انہیں اعزاز بخشا گیا۔

ہیرا ناتھ کہتے ہیں کہ ان کے یہاں آج بھی ہندو مسلم کی تفریق نہیں ہے، کیونکہ انہیں انسانیت وراثت میں ملی ہے۔ انہوں نے کہا 'مسلمانوں میں ہر چھوٹا بڑا ہنر موجود ہے۔ مسلمانوں کے بغیر ہماری قوم کا بھی کام نہیں چلے گا۔ کیونکہ دیکھیں تو جتنے بڑے پہلوان، موسیقار ہیں وہ مسلمان ہی ہیں۔'

انہوں نے مزید کہا کہ آج کے دور میں بھی دیکھیں تو موٹرسائیکل مکینک سے لیکر درزی، راج مستری سبھی چیزوں کے ہنر میں مسلمان ہیں۔ سیاسی رہنما ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تفریق کر سکتے ہیں۔ لیکن لوگ آج بھی آپسی اتحاد کے قائل ہیں۔

مزید پڑھیں:رستمِ ہند دارا سنگھ کی برسی آج

واضح رہے کہ گاما پہلوان کی پیدائش امرتسر پنجاب میں ہوئی تھی۔ بٹوارہ کے دوران وہ لاہور پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ تقسیم کے بعد بھی وہ متعدد بار بھارت آئے تھے۔ سیجووار اسٹیٹ جہاں انہوں کُشتی میں مہارت حاصل کی تھی آج بھی وہ قائم ہے۔

بھارتی تاریخ کے عظیم پہلوان غلام محمد عرف گاما پہلوان کا ریاست بہار کے ضلع گیا سے گہرا لگاؤ رہا ہے۔ وہ کشتی کے اکھاڑے میں " دی گریٹ گاما" رستم زماں کے نام سے مشہور تھے۔

گاما ایک ایسے پہلوان تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی کُشتی نہیں ہاری۔ کہا جاتا ہے کہ بروسلی بھی گاما پہلوان سے متاثر تھے اور انہوں نے گاما سے متاثر ہوکر ہی یہ فن سیکھا تھا۔

گاما پہلوان کی یادیں

گاما پہلوان کو رستم زماں بنانے میں شہر گیا کے سیجووار اسٹیٹ کے مالک گووند جی سیجووار کا اہم کردار رہا ہے۔

انیسویں صدی کے شروع میں گاما پہلوان کا گیا سے قلبی اور پہلوانی کا رشتہ جڑ چکا تھا۔ وشنو پتھ مندر کے علاقہ میں واقع سیجووار اسٹیٹ کا وہ کُشتی کا اکھاڑا جہاں گاما پہلوان، غلام بخش پہلوان، اندھا پہلوان اور دوسرے مسلم پہلوانوں کی کُشتی ہوا کرتی تھی، وہ اکھاڑا آج بھی موجود ہے. یہاں گوند جی سیجووار کی تصویر کے ساتھ گاما پہلوان کی تصاویر موجود ہیں۔

گیا کے سیجووار اسٹیٹ میں عظیم پہلوان" گاما" پہلوان کے کشتی کا اکھاڑا آج بھی موجود ہے۔ سیجووار اسٹیٹ میں گاما پہلوان کی کشتی سے جڑی تمام یادیں محفوظ ہیں۔ گاما پہلوان تقسیم ہند کے وقت پاکستان چلے گئے تھے۔ تاہم آج بھی گیا میں ان کی کشتی کے شیدائی موجود ہیں۔ وشنو پتھ میں واقع سیجووار اسٹیٹ کے مالک نے کہا 'ہمارے آبا و اجداد نے جب مسلمانوں سے تفریق نہیں کی تو ہم کیسے کرسکتے ہیں۔

گوند جی سیجووار کے پوتے ہیرا ناتھ کہتے ہیں کہ گاما پہلوان کو ان کے دادا کی نگرانی میں تربیت دی گئی تھی۔ گوند جی کا وزن گاما پہلوان سے زیادہ تھا۔ چھ ماہ تک مسلسل ریہاں رہ کر گاما پہلوان نے کشتی کی ہے۔ گاما پہلوان کی غذائی ضروریات کی تکمیل کے لیے اس وقت لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے تھے۔

گیا سے ہی تکنیکی طور پر گاما پہلوان مضبوط ہوئے تھے اور جب انہوں نے کلکتہ میں کشتی میں شرکت کی اور بڑے بڑے پہلوانوں کو شکست دی تو وہیں، انہیں" رستم ہند‘‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔

تقسیم ہند کے دوران جب وہ بھارت چھوڑ کر جارہے تھے تب پٹیالہ کے مہاراج نے انہیں یہیں رہنے کی دعوت دی اور کہا کہ انہیں وہ سو بیگھا زمین بھی دیں گے۔ لیکن گاما پہلوان اپنے رشتے داروں کے پاکستان جانے کا حوالہ دے کر وہ یہاں سے ہجرت کر گئے۔ اس کے باوجود انہیں بھارت میں کافی اعزاز ملا۔

زندگی کے آخری ایام میں وہ مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ بھارت میں اس وقت ان کے رابطے میں رہنے والے افراد کو دلی تکلیف ہوئی تھی۔

بھارت کے بڑے صنعت کار برلا کی طرف سے اس وقت انہیں ہر ماہ تین سو روپے وظیفہ پاکستان بھیجا جاتا تھا تاکہ ان کی زندگی آسانی سے بسر ہوسکے۔

ہیرا ناتھ کہتے ہیں کہ بٹوارے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے تھے اس میں کافی چیزیں برباد ہوئی ہیں۔ تاہم سیجووار اسٹیٹ میں آج تک ان سے جڑی چیزیں محفوظ ہیں۔ گاما پہلوان تقسیم کے بعد جب بھی یہاں آئے تو انہیں اعزاز بخشا گیا۔

ہیرا ناتھ کہتے ہیں کہ ان کے یہاں آج بھی ہندو مسلم کی تفریق نہیں ہے، کیونکہ انہیں انسانیت وراثت میں ملی ہے۔ انہوں نے کہا 'مسلمانوں میں ہر چھوٹا بڑا ہنر موجود ہے۔ مسلمانوں کے بغیر ہماری قوم کا بھی کام نہیں چلے گا۔ کیونکہ دیکھیں تو جتنے بڑے پہلوان، موسیقار ہیں وہ مسلمان ہی ہیں۔'

انہوں نے مزید کہا کہ آج کے دور میں بھی دیکھیں تو موٹرسائیکل مکینک سے لیکر درزی، راج مستری سبھی چیزوں کے ہنر میں مسلمان ہیں۔ سیاسی رہنما ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تفریق کر سکتے ہیں۔ لیکن لوگ آج بھی آپسی اتحاد کے قائل ہیں۔

مزید پڑھیں:رستمِ ہند دارا سنگھ کی برسی آج

واضح رہے کہ گاما پہلوان کی پیدائش امرتسر پنجاب میں ہوئی تھی۔ بٹوارہ کے دوران وہ لاہور پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ تقسیم کے بعد بھی وہ متعدد بار بھارت آئے تھے۔ سیجووار اسٹیٹ جہاں انہوں کُشتی میں مہارت حاصل کی تھی آج بھی وہ قائم ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.