گیا: بہار کے گیا ضلع میں ایک مندر کے احاطے میں اسکول قائم ہے جہاں پر دیگر مذاہب کے بچوں کے ساتھ مسلم طلبہ بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس اسکول میں مسلم طلبہ کی تعداد زیادہ ہے اور وہ بلاتفریق برسوں سے یہاں زیر تعلیم ہیں۔ دراصل علاقے میں واقع اسکول کی کوئی مستقل عمارت نہیں ہے اور طلبہ و اساتذہ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا جس کی وجہ مقامی لوگوں نے اسکول کو مندر کے احاطے میں منتقل کر دیا۔ School Set Up in Temple Premises in Gaya
تفصیلات کے مطابق ضلع گیا میں ایک ایسے سرکاری اسکول کا ان دنوں خوب تذکرہ ہے جس کی مستقل عمارت نہیں ہے لیکن یہاں کی ہندو برادری نے مندر میں ہی بچوں کو پڑھانے کے لیے جگہ فراہم کر دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اسکول میں مسلم طلبہ کی تعداد زیادہ ہے۔ جس اسکول کی یہاں بات ہو رہی ہے اس اسکول کا قیام ہی ایک مندر میں ہوا تھا۔
شہر سے متصل گیا۔بودھ گیا روڈ پر واقع بخشو بیگہ محلہ ہے۔ یہاں پر بخشو بیگہ پرائمری اسکول ہے جس میں 107 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ اس میں 70 طلبہ مسلم ہیں جب کہ بقیہ بچوں میں درج فہرست ذات کے ہیں، بخشو بیگہ محلہ نگرنگم میں آتا ہے اور یہاں کی آبادی اقتصادی طور پر کمزور ہے۔ اسکول کے تعلق سے بتایاجاتا ہے کہ سنہ 1998 میں بخشو بیگہ کے کسی ایک مقام پر پرائمری اسکول کا قیام عمل میں آیا، اسوقت اسکول کی عمارت کی زمین کی نشاندہی کے ساتھ عمارت کی تعمیر کروانے کی کوشش ہوئی تاہم زمین کے تنازع کی وجہ سے اسکول کی عمارت نہیں بن سکی۔ یہاں پڑھنے والے بچوں کی پریشانیوں کو دیکھتے بعد میں کیندوئی اور بخشو بیگہ کے لوگوں نے اسکول کو 'جے دیوی مندر' میں منتقل کردیا اور یہاں تسلسل کے ساتھ برسوں سے اسکول چل رہا ہے۔
مندر میں مسلم بچوں کو بغیر کسی روک ٹوک آنے کی اجازت ہے۔ تہواروں کے موقع پر مندر میں ایک طرف پوجا ہوتی ہے جبکہ دوسری جانب بغیر کسی تفریق کے طلبہ پڑھائی کرتے ہیں۔ بنیادی سہولیات یعنی پینے کا پانی، بینچ اور بیت الخلاء کی سہولت نہ ہونے کے باوجود بھی ہر دن طلبہ کی حاضری بہتر ہوتی ہے، مسلم بچوں کے سرپرست مندر کا احترام کرنے کے لیے بچوں کو نصیحت کرتے ہیں اور بچے بھی اپنے سرپرست اور ٹیچرز کی ہدایت اور نصیحت پر بھرپور عمل کرتے ہیں۔
مندر کے احاطے میں جاری اسکول میں زیر تعلیم طالبات جوہی پروین اور لاڈلی پروین نے کہا ' ان کے اسکول کی عمارت نہیں ہے اس کے اسکول کو مندر میں منتقل کر دیا گیا اور یہاں ان کے ساتھ کبھی بھی کسی طرح کی تفریق کا معاملہ پیش نہیں آیا۔
اسکول کی ایک ٹیچر ارچنا رانی نے کہا کہ 'تعلیم ایک ایسی نعمت ہے جس کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ تعلیم جہاں بھی ملے جہاں ملے بغیر کسی مذہب، برادری، علاقائی تفریق کے حاصل کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ واقعی یہ اسکول مثالی ہے کیونکہ آج ملک میں ایسے کچھ لوگ ہیں جو مذہبی منافرت اور تلخی پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں، لیکن ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں جو ملک میں اپنی سطح پر گنگا۔جمنی تہذیب کی مثال پیش کر رہے ہیں۔ یہاں جس جگہ پر مندر ہے اس جگہ پر مسلم آبادی نہیں ہے بلکہ یہاں سے نصف کلومیٹر دوری پر بخشو بیگہ ہے لیکن کبھی کسی فرد نے مسلم بچوں کو یہاں مندر میں داخل ہونے سے نہیں روک۔ تہواروں کے موقع پر بچے مندر میں موجود ہوتے ہیں، مذہب آپس میں نفرت نہیں سکھاتا ہے اسکا سبق ابھی سے بچوں کو دیا جاتا ہے۔
اسکول کی ہیڈ ماسٹر کماری انجنا پرساد نے کہا کہ ذات اور برادری سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہاں بچے پڑھنے آتے ہیں اور ہم لوگ ان پر محنت کرتے ہیں۔
علاقہ آپسی اتحاد کا ہے مثال: مقامی سماجی کارکن سنتوش سنگھ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ کیندوئی اور بخشو بیگہ نے ہمیشہ گنگا۔جمنی تہذیب کی مثال پیش کی ہے، یہاں پر کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کا ایک بھی گھر نہیں ہے تاہم صدیوں پرانے ان کے مذہبی مقامات کی حفاظت ہندو برادری کرتی ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں سنتوش سنگھ نے کہا کہ 'ملک میں اقلیتی طبقے پر ظلم کی سچی۔جھوٹی خبریں کئی بار سامنے آ چکی ہیں لیکن یہاں ان سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے آباواجداد نے انسانیت، ہمدردی، محبت اور بھائی چارے کی تعلیم دی ہے۔ جے دیوی مندر میں طلبہ دلجمعی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔