ETV Bharat / bharat

جامعہ کے بانی جن کے پاس مجاہدین آزادی طبی امداد کے لیے پہنچتے تھے

author img

By

Published : Oct 31, 2021, 6:15 AM IST

جب بھارت آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہا ہے، یہ صفحہ پلٹنا اور جامعہ کے بانی اراکین ڈاکٹر مختار احمد انصاری (ایم اے انصاری) اور حکیم اجمل خان کو خراج تحسین پیش کرنا اہم ہے۔ انہوں نے نہ صرف جے ایم یو کی بنیاد ڈالی بلکہ مجاہدین آزادی کے ساتھ مل کر آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوئے۔

Founding members of Jamia Millia Islamia University
Founding members of Jamia Millia Islamia University

بھارت کی سب سے باوقار یونیورسٹیوں میں سے ایک جامعہ ملیہ اسلامیہ کی شروعات مہاتما گاندھی کی انگریزوں کے خلاف عدم تعاون تحریک سے ہوئی تھی۔ 29 اکتوبر 1920 کو قائم ہونے والی یونیورسٹی کو ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور یہ ملک کی سماجی و سیاسی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ جواہر لال نہرو نے اسے ’’گاندھی کی عدم تعاون کی تحریک کا بچہ‘‘ قرار دیا تھا۔

جب بھارت آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہا ہے، یہ صفحہ پلٹنا اور جامعہ کے بانی اراکین ڈاکٹر مختار احمد انصاری (ایم اے انصاری) اور حکیم اجمل خان کو خراج تحسین پیش کرنا اہم ہے۔ انہوں نے نہ صرف جے ایم یو کی بنیاد ڈالی بلکہ مجاہد آزادی کے ساتھ مل کر آزادی کی جدوجہد کی حمایت بھی کی۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے بانی، جن کے پاس مجاہدین آزادی طبی امداد کے لیے پہنچتے تھے

ڈاکٹر انصاری نے 1928 سے 1936 تک جے ایم یو کے وائس چانسلر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے رکن، صحت کے مسائل کا سامنا کرنے والے مجاہد آزادی کے لیے کافی اہم تھے۔

تاریخ دان سہیل ہاشمی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ایم اے انصاری نے صحت کی دیکھ بھال کے ذریعے ملک کی جدوجہد آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان دنوں بھارت میں تین بڑے سرجن مشہور تھے۔ ان میں کلکتہ کے ڈاکٹر بِدھان چندر رائے، ممبئی کے میراجکر اور دہلی کے ڈاکٹر مختار احمد انصاری کا نام لیا جاتا تھا۔

دہلی کے دریا گنج میں ڈاکٹر ایم اے انصاری کا ایک بڑا گھر تھا، جہاں دہلی میں ہونے والے کانگریس کے اجلاس میں شرکت کرنے والے اہم مندوبین آتے اور ٹھہرتے تھے۔ ہاشمی نے کہا کہ بہت سے مجاہد آزادی ڈاکٹر انصاری کے پاس علاج کے لیے آتے تھے اور وہ انہیں اپنے گھر میں پناہ دیتے تھے۔

ہاشمی نے مزید کہا کہ مختلف نظریات کے حامل آزادی پسند، چاہے وہ کانگریس، سوشلسٹ، کمیونسٹ یا زیر زمین تحریک کے لوگ ہوں، ہر کوئی ڈاکٹر انصاری کے پاس آتا تھا اور ضرورت پڑنے پر ان کے گھر پناہ لیتا تھا۔

ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ہاشمی نے کہا کہ مہاتما گاندھی جب فریڈم فائٹر سے پوچھتے تھے کہ جب وہ دہلی میں آتے ہیں تو ان کا بادشاہ کون ہوتا ہے تب لوگ ڈاکٹر انصاری کا نام لیتے تھے۔

1868 میں پیدا ہونے والے حکیم اجمل خان نے تحریک خلافت اور عدم تعاون کی تحریک میں حصہ لیا اور لوگوں کو مفت علاج فراہم کیا۔ عدم تعاون کی تحریک 1920 میں شروع ہوئی اور ممتاز رہنماؤں بشمول شوکت علی، محمد علی، مولانا عبدالکلام آزاد نے گاندھی جی کے ساتھ برطانوی نظام تعلیم کے خلاف بغاوت کی۔

انگریزوں کے حمایت یافتہ یا چلائے جانے والے تمام تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کرنے کی کال کے جواب میں، قوم پرست اساتذہ اور طلباء کا ایک گروپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے واک آؤٹ کر گیا، اس طرح یونیورسٹی کے برطانیہ نواز جھکاؤ کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔ اس میں مولانا محمود حسن، مولانا محمد علی، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، اور عبدالمجید خواجہ شامل تھے۔

ابتدائی طور پر کرائے کی عمارت میں کلاسز شروع ہوئی اور چند سالوں کے بعد حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری اور عبدالمجید خواجہ نے گاندھی جی کے تعاون سے 1925 میں جامعہ کو علی گڑھ سے قرول باغ، نئی دہلی منتقل کر دیا۔ گاندھی جی نے کہا کہ جامعہ کو جاری رہنا چاہئے، اگر آپ اس کی مالی امداد یا بجٹ کے لیے فکر مند ہیں تو میں بھیک مانگنے کے لیے تیار ہوں۔

تاریخ دان ہاشمی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "شروع میں تعلیم کرائے کی عمارت میں شروع ہوئی، کچھ سال بعد جامعہ کو دہلی کے قرول باغ میں منتقل کر دیا گیا اور حکیم اجمل خان نے زیادہ تر اخراجات اٹھائے۔ اجمل خان نے انگریزوں کا دیا ہوا عالم کا خطاب واپس کر دیا۔ اجمل خان کے اعزاز کے طور پر انہیں بھارتیوں نے مسیح الملک کا خطاب دیا تھا۔

اجمل خان کے والد نے بلی ماران میں واقع شریف منزل میں ایک ہسپتال بنوایا تھا لیکن رفتہ رفتہ شریف منزل کانگریس کے دفتر میں تبدیل ہو گئی اور دہلی میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کی ہر میٹنگ وہیں ہونے لگی۔

یہ بھی پڑھیں: مقبول شیروانی: پاکستان حملہ آوروں کے خلاف بھارتی فوج کے مددگار

جامعہ کے تمام ادارے بشمول جامعہ پریس، مکتبہ اور لائبریری کو کیمپس میں منتقل کر دیا گیا۔ 1927 میں اجمل خان کا انتقال ہوگیا۔ 1934 میں ڈاکٹر انصاری کا انتقال ہوا اور دونوں کو جامعہ کے کیمپس میں سپرد خاک کیا گیا۔

بہت ساری مشکلات کے درمیان آگے بڑھنا دشوار ہو جاتا ہے لیکن یہ بات جامعہ اور اجمل خان کے بارے میں سچ ثابت نہیں ہوئیں۔ ڈاکٹر انصاری کی خدمات کا اعتراف پورا ملک کرتا رہے گا، کیوں کہ جامعہ کے طلبہ نے ملک کے سماجی تانے بانے کو ہمیشہ متاثر کیا ہے۔

بھارت کی سب سے باوقار یونیورسٹیوں میں سے ایک جامعہ ملیہ اسلامیہ کی شروعات مہاتما گاندھی کی انگریزوں کے خلاف عدم تعاون تحریک سے ہوئی تھی۔ 29 اکتوبر 1920 کو قائم ہونے والی یونیورسٹی کو ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے اور یہ ملک کی سماجی و سیاسی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ جواہر لال نہرو نے اسے ’’گاندھی کی عدم تعاون کی تحریک کا بچہ‘‘ قرار دیا تھا۔

جب بھارت آزادی کے 75 سال کا جشن منا رہا ہے، یہ صفحہ پلٹنا اور جامعہ کے بانی اراکین ڈاکٹر مختار احمد انصاری (ایم اے انصاری) اور حکیم اجمل خان کو خراج تحسین پیش کرنا اہم ہے۔ انہوں نے نہ صرف جے ایم یو کی بنیاد ڈالی بلکہ مجاہد آزادی کے ساتھ مل کر آزادی کی جدوجہد کی حمایت بھی کی۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے بانی، جن کے پاس مجاہدین آزادی طبی امداد کے لیے پہنچتے تھے

ڈاکٹر انصاری نے 1928 سے 1936 تک جے ایم یو کے وائس چانسلر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے رکن، صحت کے مسائل کا سامنا کرنے والے مجاہد آزادی کے لیے کافی اہم تھے۔

تاریخ دان سہیل ہاشمی کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر ایم اے انصاری نے صحت کی دیکھ بھال کے ذریعے ملک کی جدوجہد آزادی میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان دنوں بھارت میں تین بڑے سرجن مشہور تھے۔ ان میں کلکتہ کے ڈاکٹر بِدھان چندر رائے، ممبئی کے میراجکر اور دہلی کے ڈاکٹر مختار احمد انصاری کا نام لیا جاتا تھا۔

دہلی کے دریا گنج میں ڈاکٹر ایم اے انصاری کا ایک بڑا گھر تھا، جہاں دہلی میں ہونے والے کانگریس کے اجلاس میں شرکت کرنے والے اہم مندوبین آتے اور ٹھہرتے تھے۔ ہاشمی نے کہا کہ بہت سے مجاہد آزادی ڈاکٹر انصاری کے پاس علاج کے لیے آتے تھے اور وہ انہیں اپنے گھر میں پناہ دیتے تھے۔

ہاشمی نے مزید کہا کہ مختلف نظریات کے حامل آزادی پسند، چاہے وہ کانگریس، سوشلسٹ، کمیونسٹ یا زیر زمین تحریک کے لوگ ہوں، ہر کوئی ڈاکٹر انصاری کے پاس آتا تھا اور ضرورت پڑنے پر ان کے گھر پناہ لیتا تھا۔

ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ہاشمی نے کہا کہ مہاتما گاندھی جب فریڈم فائٹر سے پوچھتے تھے کہ جب وہ دہلی میں آتے ہیں تو ان کا بادشاہ کون ہوتا ہے تب لوگ ڈاکٹر انصاری کا نام لیتے تھے۔

1868 میں پیدا ہونے والے حکیم اجمل خان نے تحریک خلافت اور عدم تعاون کی تحریک میں حصہ لیا اور لوگوں کو مفت علاج فراہم کیا۔ عدم تعاون کی تحریک 1920 میں شروع ہوئی اور ممتاز رہنماؤں بشمول شوکت علی، محمد علی، مولانا عبدالکلام آزاد نے گاندھی جی کے ساتھ برطانوی نظام تعلیم کے خلاف بغاوت کی۔

انگریزوں کے حمایت یافتہ یا چلائے جانے والے تمام تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کرنے کی کال کے جواب میں، قوم پرست اساتذہ اور طلباء کا ایک گروپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے واک آؤٹ کر گیا، اس طرح یونیورسٹی کے برطانیہ نواز جھکاؤ کے خلاف اپنی ناراضگی کا اظہار کیا گیا۔ اس میں مولانا محمود حسن، مولانا محمد علی، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، اور عبدالمجید خواجہ شامل تھے۔

ابتدائی طور پر کرائے کی عمارت میں کلاسز شروع ہوئی اور چند سالوں کے بعد حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری اور عبدالمجید خواجہ نے گاندھی جی کے تعاون سے 1925 میں جامعہ کو علی گڑھ سے قرول باغ، نئی دہلی منتقل کر دیا۔ گاندھی جی نے کہا کہ جامعہ کو جاری رہنا چاہئے، اگر آپ اس کی مالی امداد یا بجٹ کے لیے فکر مند ہیں تو میں بھیک مانگنے کے لیے تیار ہوں۔

تاریخ دان ہاشمی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "شروع میں تعلیم کرائے کی عمارت میں شروع ہوئی، کچھ سال بعد جامعہ کو دہلی کے قرول باغ میں منتقل کر دیا گیا اور حکیم اجمل خان نے زیادہ تر اخراجات اٹھائے۔ اجمل خان نے انگریزوں کا دیا ہوا عالم کا خطاب واپس کر دیا۔ اجمل خان کے اعزاز کے طور پر انہیں بھارتیوں نے مسیح الملک کا خطاب دیا تھا۔

اجمل خان کے والد نے بلی ماران میں واقع شریف منزل میں ایک ہسپتال بنوایا تھا لیکن رفتہ رفتہ شریف منزل کانگریس کے دفتر میں تبدیل ہو گئی اور دہلی میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کی ہر میٹنگ وہیں ہونے لگی۔

یہ بھی پڑھیں: مقبول شیروانی: پاکستان حملہ آوروں کے خلاف بھارتی فوج کے مددگار

جامعہ کے تمام ادارے بشمول جامعہ پریس، مکتبہ اور لائبریری کو کیمپس میں منتقل کر دیا گیا۔ 1927 میں اجمل خان کا انتقال ہوگیا۔ 1934 میں ڈاکٹر انصاری کا انتقال ہوا اور دونوں کو جامعہ کے کیمپس میں سپرد خاک کیا گیا۔

بہت ساری مشکلات کے درمیان آگے بڑھنا دشوار ہو جاتا ہے لیکن یہ بات جامعہ اور اجمل خان کے بارے میں سچ ثابت نہیں ہوئیں۔ ڈاکٹر انصاری کی خدمات کا اعتراف پورا ملک کرتا رہے گا، کیوں کہ جامعہ کے طلبہ نے ملک کے سماجی تانے بانے کو ہمیشہ متاثر کیا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.