اردو قارئین کی کم ہوتی تعداد Decline Of Urdu Journalism پر تشویس کا اظہار کرتے ہوئے سابق نائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری نے کہا کہ جس طرح آبادی بڑھ رہی ہے اسی طرح اردو قارئین کی تعداد دن بہ دن کمی واقع ہورہی ہے جو باعث تشویش ہے۔ انہوں نے کہاکہ جب تک اسکولوں میں اردو نہیں پڑھائی جاتی اس وقت تک اردو پڑھنے اور لکھنے والے کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے اسکولوں میں اردو اساتذہ کی کمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ جب تک اسکولوں میں اردو Urdu In Schools پڑھنے والے طلبہ کی مقررہ تعداد نہیں ہوتی اردو استاذ نہیں رکھے جاتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو بچے اردو پڑھنا چاہتے ہیں لیکن وہ دوسری زبان پڑھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
حامد انصاری نے گھروں میں اردو پڑھانے پر زور دیتے ہوئے کہاکہ اسکولوں میں اردو کی پڑھائی نہیں ہوتی اورگھر پر نہیں پڑھائیں گے تو پھر اردو کی پڑھائی کہاں ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ جو کام والدین کو کرنا چاہئے وہ کام نہیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اردو کے فروغ کے ذمہ داری ان کی ہے جن کی زبان ہے لہذا اردو کے تئیں ذمہ داری نبھانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ مطمئن رہیں کہ اردو زندہ رہے گی۔تاہم انہوں نے کہاکہ اس وقت اردو صرف بھارت کی نہیں بلکہ بین الاقوامی زبان ہے۔ امریکہ، آسٹریلیاں اور دیگر ممالک میں اردو رسالے نکل رہے ہیں اور اردو بولی جارہی ہے۔
وہیں سابق مرکزی وزیر اور سابق وزیر اعلی جمو ں وکشمیر غلام نبی آزاد نے اردو صحافت کی تاریخ پرروشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اردو صحافت Urdu Journalism کے آغاز کے بارے میں متضاد دعوے کئے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پہلا شخص جسے کالاپانی بھیجا گیاتھا وہ ایک مسلم صحافی تھا۔ یہ تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ شخص کون تھا۔ انہوں نے کہاکہ 1794 میں ہندوستان کا پہلا اخبار ٹیپو سلطان نے ’فوجی اخبار‘ کے نام سے نکالا تھا جو فوجیوں کے لئے تھا اور پہلا پرنٹنگ پریس بھی ٹیپو سلطان نے ہی قائم کیا تھا۔ انہوں رکن نے جنگ آزادی میں اردو صحافت اور اردو صحافیوں کی خدمات کا ذکر کرنے پر زور دیتے ہوئے کہاکہ ان کی قربانیوں پر بات چیت بہت کم ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اردو زبان آہستہ آہستہ سکڑ رہی ہے اور آج کے بچے انگریزی زبان زیادہ پڑھنا پسند کرتے ہیں کیوں کہ انہیں اس میں اپنا مستقبل نظر آتا ہے۔
سابق رکن پارلیمنٹ اور سابق سفارت کار میم افضل نے صدارت کرتے ہوئے آزادی کے بعد اردو کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ذکر کیا اور کہا کہ اردو کو مسلمانوں کا زبان بنادیا گیا ہے اور اس میں کچھ حد تک اردو والے بھی شامل ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ اردو اس طرح توجہ نہیں دی گئی جس کی ضرورت تھی۔ انہوں نے کہاکہ اردو دم توڑنے والی زبان نہیں ہے۔ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ اردو صحافت کے مستقبل کو زندہ رکھنا ہے تو اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں۔ پدم شری اور مولانا آزاد یونیورسٹی کے صدر پروفیسر اختر الواسع نے کہاکہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا Language Has No Religion اگر زبان کا مذہب ہوتا تو اردو کے پہلے اخبار جام جہاں نماں کرتا دھرتا سدا سکھ لعل اور ہری دت نہیں ہوتے۔
دوسرے سیشن میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے سربراہ پروفیسر شافع قدوائی نے کہاکہ آج کا میڈیا حقائق پیش نہیں کرتا بلکہ اپنے حقائق پیش کرتاہے۔ پہلے اخبارات حقائق کے ترجمان ہوتے ہیں جب کہ آج دوسری طرح کے سچ بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بقول مولانا وحیدالدین خاں اردو صحافت احتجاج کی صحافت ہے۔ وہیں مشہور صحافی قربان علی نے کہاکہ جب تک اردو کو روزی روٹی سے نہیں جوڑا جائے گا اس وقت تک نہ اردو صحافت بچیں گے اور نہ ہی اردو کے اخبارات۔ اردو والے پیسے خرچ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اخبار کے صحافیوں کی تنخواہ انتہائی کم ہے۔ممبئی سے شائع ہونے والا اخبار ہندوستان کے مدیر سرفراز آرزو نے اخبارات کی دگرگوں حالت کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اشتہارات کی کمی کی وجہ سے اخبارات کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے اور بقا کیلئے کئی طرح کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ Two Hundred Years Celebration Of Urdu journalism
یہ بھی پڑھیں: Ghulam Nabi Azad On Urdu: 'آزادی کی جدوجہد کو تمام زبانوں میں لازمی موضوع نہ بنانا بڑی غلطی تھی'
مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اسلم پرویز نے کہاکہ اردو صحافت کاچیلنج یہ بھی ہے کہ جب تک ہم اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتے اس وقت تک اردو کابقاممکن نہیں ہے۔ روزنامہ آگ لکھنؤ کے مدیراعلی ابراہم علوی نے اس سیشن کی صدارت کرتے ہوئے کہاکہ اردو دزبان بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے گھروں میں بچو ں کو اردو پڑھائیں۔ خطاب کرنے والوں میں شاہین نظر، ڈاکٹر سید فاروق، رکن پارلیمنٹ ندیم الحق، رئیس مرزااور دیگر شامل تھے۔
وہیں س موقع پر متعدد صحافیوں کو ایوارڈ اور مومنٹو بھی پیش کیا گیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر مرضیہ عارف نے اپنی کتاب جہان فکر و فن کی کاپی سابق صدر جمہوریہ حامد انصاری کو پیش کی۔ پہلے سیشن کی نظامت پروگرام کے کنوینر اور مشہور صحافی معصوم مرادآبادی نے کی جب کہ دوسرے سیشن کی نظامت معروف صحافی سہیل انجم نے انجام دی۔ Two Hundred Years Celebration Of Urdu journalism
یو این آئی