کسانوں کے مظاہروں کی وجہ سے آج چلہ اور غازی پور بارڈر بند کردیا گیا ہے۔ ان دو راستوں سے لوگ دہلی سے نوئیڈا اور غازی آباد آتے جاتے ہیں، فی الحال شاہراہ مکمل طور پر بند ہے اور لوگوں کو ڈی این ڈی کی جانب سے جانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
متحدہ کسان مورچہ نے اگلے اقدامات پر تبادلۂ خیال کے لئے آج ایک اور اجلاس طلب کیا ہے جس میں کسان کی 80 تنظیمیں حصہ لیں گی۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ ان دو امور سے دستبرداری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جو ایم ایس پی کی قانونی ضمانت ہیں اور زرعی قوانین کو کالعدم قرار دیں۔
بدھ کے روز حکومت اور کسان یونینوں کے درمیان چھٹے دور کی بات چیت تقریباً پانچ گھنٹے تک جاری رہی جس میں بجلی کے نرخوں میں اضافے اور بھوسے جلانے کے جرمانے کے بارے میں کسانوں کے خدشات کو حل کرنے کے لیے کچھ اتفاق رائے ہوا۔
خیال رہے کہ ہزاروں کسان خاص طور پر پنجاب اور ہریانہ سے تعلق رکھنے والے ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے قومی دارالحکومت کی سرحدوں پر مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ تینوں نئے زرعی قوانین کو منسوخ کیا جائے۔
سینیئر کسان رہنما گرنام سنگھ چڈھونی نے کہا کہ مشترکہ کسان مورچہ نے مزید اقدامات پر تبادلہ خیال کے لیے جمعہ کے روز ایک اور اجلاس طلب کیا ہے۔ تاہم ان دو امور سے دستبرداری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جو ایم ایس پیز کی قانونی ضمانت اور زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کے مطالبات ہیں۔
چڈھنی نے کہا کہ 'حکومت نے پرالی جلانے سے متعلق آرڈیننس میں کاشتکاروں کے خلاف تعزیری دفعات کو ختم کرنے اور بجلی کے ایکٹ میں مجوزہ ترمیم کو روکنے کے ہمارے مطالبات کو مان لیا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'لیکن ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے باقی دو مطالبات کا کوئی متبادل نہیں ہے، جس میں تین زرعی قوانین کو منسوخ کرنا اور ایم ایس پی کی قانونی ضمانت شامل ہے۔'
کسان احتجاج آل انڈیا کسان سنگھرش کو آرڈینیشن کمیٹی نے جمعرات کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مرکزی حکومت نے کسان رہنماؤں سے ان قوانین کو منسوخ کرنے کے لیے جو اپیل کی ہے، وہ ناممکن ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ نئے قوانین زرعی منڈیوں، کسانوں کی اراضی اور فوڈ چین کو کارپوریٹ کے حوالے کریں گے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 'جب تک ان قوانین کو منسوخ نہیں کیا جاتا ہے، منڈیوں میں کسان نواز تبدیلیوں پر تبادلہ خیال کرنے اور کسانوں کی آمدنی کو دگنا کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔'