ریاست کرناٹک کے سینئر صحافی عزیزاللہ سرمست ایڈیٹر روزنامہ کے بی این ٹائمز گلبرگہ نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کرناٹک میں اردو صحافت کی ابتدا پر تفصیل سے گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ مجاہد آزادی ٹیپو سلطان نے جہاں انگریزوں سے ملک کی آزادی کی لڑائی کی شروعات کی وہیں ریاست میں اخبارات کی شروعات بھی کی۔ انہوں نے 1794 میں ''فوجی'' نامی اخبار نکالا جس میں زیادہ تر فوجی خبریں شائع ہوا کرتی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ اردو کا پہلا اخبار ''قاسم الاخبار'' جس کو محمد قاسم غم نے 1865 میں جاری کیا۔ محمد قاسم کے انتقال کے بعد ان کے فرزند سید محمود شریف محمد نے 1851 اور 1911 میں محمود خان نے اس کی ذمہ داری سنبھالی اور اخبار کو جاری رکھا۔
اسی طرح 1859 میں قاصی الملک، 1873 میں میسور سے میسور اخبار حافظ سید محمود نے شائع کیا اور 1885 میں ابراہیم نے
باد صبا، 1977 میں بیدر گزٹ جو شمالی کرناٹک کا پہلا اردو اخبار تصور کیا جاتا ہے جس کو مہر علی نے بیدر سے جاری کیا اور یکم جون 1948 کو ہمدرد جاری ہوا۔
انہوں نے اردو صحافیوں سے متعلق کہا کہ محبوب حسین جگر نے ''سیاست'' ، محمود انصاری نے ''منصف'' اور محمود ایاز نے ''سالار'' شائع کرکے اپنی مدیرانہ صلاحیتوں سے ریاست میں اردو صحافت کو پروان چڑھانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔
عزیز اللہ سرمست نے مزید کہا کہ ہفت روزہ اخبار ''نشیمن'' جس کے مدیر عثمان اسد تھے۔ یہ ملک کا واحد ایسا اخبار تھا جو پورے ملک میں اردو صحافت میں ریاست کی نمائندگی کرتا تھا آج بھی یہ اخبار جاری ہے جس کے مدیر رضوان اسد ہیں۔
موجودہ دور میں اردو اخبارات سے متعلق انہوں نے کہا کہ آج ریاست میں سالار، پاسبان، کے بی این ٹائمز و دیگر اردو اخبارات ہیں جنہوں نے نامساعد حالات میں بھی اپنی ذمہ داری کو بخوبی انجام دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج اخبار کو قارئین موبائل پر پڑھنا چاہتے ہیں اور ایک دور ایسا آئے گا کہ اخبارات صرف آن لائن ہی ہوں گے۔
مزید پڑھیں:۔ 'کسی بھی تحریک کو کامیاب بنانے میں میڈیا کا کردار اہم'
نوجوان صحافیوں سے متعلق انہوں نے کہا کہ صحافت کے شعبے میں بہت کم نوجوان آرہے ہیں اور جو لوگ ہیں وہ اردو زبان پر مہارت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے اردو صحافت کا معیار کم ہو رہا ہے۔ ایسے حالات میں اردو صحافت کو باصلاحیت لوگوں کی ضرورت ہے۔
انہوں نے خاص کر علمائے کرام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ شعبہ صحافت میں بھی اپنی خدمات کو انجام دیں۔