ریاست اترپردیش کے تاریخی شہر بنارس میں کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر مرزا محمد زماں آزردہ نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کی ہے۔
پروفیسر مرزا محمد زماں آزردہ نے انشا نگاری پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انشائیہ نگار ہمیشہ قارئین کے جذبات کا احترام کرتا ہے۔
انشا نگار بنیادی طور پر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان اچھوتے پہلو پر روشنی ڈالتا ہے جو قارئین کے لیے باعث دلچسپی ہو۔
اردو زبان و ادب کے فروغ پر بات کرتے ہوئے پروفیسر مرزا محمد زماں آزردہ نے کہا کہ موجودہ دور میں اردو زبان کے فروغ و ارتقاء کی بات کرنے والے خود اس زبان سے دور ہیں۔
انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ اردو زبان کے پروفیسر ہیں، استاد ہیں وہ خود اپنے بچوں کو اردو زبان و ادب سے دور رکھ رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس زبان کو عوامی سطح پر فروغ دینے کی ضرورت ہے، مکاتب و مدارس اور چھوٹے بڑے اسکولز و کالجز اس سلسلے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
مزید پڑھیں:اردو کی تحفظ کے لیے امارت شرعیہ کا مستحسن قدم
جموں و کشمیر میں اردو زبان کے فروغ پر بات کرتے ہوئے موصوف نے کہا کہ جموں وکشمیر میں اردو زبان سرکاری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پانچ زبانوں کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے گا جن میں اردو زبان بھی شامل ہے۔
امید کی جارہی ہے کہ سبھی زبانوں کو ترقی کرنے کا موقع ملے گا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انگریزی زبان کے آنے سے سبھی زبانوں کا نقصان بھی ہو سکتا ہے کیونکہ بیشتر افراد انگریزی کی جانب زیادہ متوجہ ہورہے ہیں ایسے میں علاقائی و اردو زبان متاثر ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر، لیہہ، لداخ اور کرگل سمیت متعدد علاقوں میں تقریباً 12 زبانیں بولی جاتی ہیں۔
ایسے میں سبھی کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کے لیے اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا ہے چونکہ اردو زبان جموں و کشمیر کے بیشتر خطہ کے لوگ بولتے اور سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اردو زبان پر کشمیریوں کا احسان نہیں ہے بلکہ اردو کشمیریوں کی ضرورت تھی اس لیے اسے سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔
نئی تعلیمی پالیسی پر انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قدیم تعلیمی نظام کے مقابل اس تعلیمی پالیسی میں کئی اچھائیاں ہیں جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اس کا فائدہ طلباء و طالبات کو ہوگا۔ اور زبان و ادب کے حوالے سے بھی یہ پالیسی بہتر ثابت ہوسکتی ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ اس کا نفاذ صحیح طریقے سے کیا جائے۔