نئی دہلی: طلاق ثلاثہ کے معاملے کے بعد اب طلاق حسن پر تنازع پیدا ہوگیا ہے حالانکہ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نےطلاق حسن کو غیر آئینی قرار دینے والی ایک عرضی پر سماعت کے دوران رائے زنی کرتے ہوئے کہا کہ طلاق حسن بادی النظر میں غیر مناسب نہیں ہے۔ بینظیر حنا نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کرکے دعویٰ کیا تھا کہ طلاق حسن بھارتی آئین کی متعدد دفعات کی خلاف ورزی اور یک طرفہ عمل ہے۔ اس پورے معاملے پر ای ٹی وی بھارت نے جماعت اسلامی ہند شریعہ کونسل کے سربراہ اور معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی سے خاص بات چیت کی۔ Exclusive interview with Islamic scholar Dr raziul islam nadvi on talaq hasan
ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے طلاق حسن معاملہ پر سپریم کورٹ کے تبصرے پر اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں میں طلاق سے متعلق کئی غلط فہمیاں ہیں، جس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے طلاق کی اقسام اور تشریح بیان کرتے ہوئے کہا کہ طلاق کے باعتبار طریقے تین ہیں۔ پہلا طریقہ طلاق احسن، دوسرا طلاق حسن اور تیسرا طلاق بدعی۔
انہوں نے کہا کہ طلاق احسن کی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو ایک طلاق ایسے طہر میں دے جس میں بیوی سے مجامعت (صحبت) نہ کی ہو اور عدت گزرنے تک اسے چھوڑدے اور طلاق حسن کا طریقہ یہ ہے کہ اپنی مدخولہ بیوی کو تین طہر میں تین طلاق دے۔ اس دوران میاں بیوی کو رجوع ہونے کا اختیار ہے جبکہ طلاق بدعی یہ ہے کہ اپنی مدخولہ بیوی کو تین طلاق ایک ہی کلمہ میں دے یا ایک طہر میں تین طلاق دے جو ناپسندیدہ عمل ہے۔
مزید پڑھیں:۔ SC On Talaq E Hasan سپریم کورٹ نے کہا طلاق حسن غلط نہیں ہے
انہوں نے بے نظیر حنا کے ذریعہ دائر پٹیشن میں طلاق حسن کو کلعدم قرار دینے کی اپیل پر سپریم کورٹ کے تبصرے کو اہم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی شریعت کی خاص بات یہ ہے کہ جس طرح مرد کو طلاق دینے کا اختیار ہے، اسی طرح عورت کو خلع لینے کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عورت کو اپنے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے میں دشواری ہورہی ہو، تو بیوی کو اسلامی شریعت میں خلع لینے کا اختیار ہے۔
واضح رہے کہ صحافی بے نظیر حنا نے اپنے شوہر اور سسرال والوں پر جہیز کے لیے ہراساں کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے شوہر نے طلاق حسن کا نوٹس بھیج کر انہیں طلاق دے دی۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرکے طلاق کو فسخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس طرح کے طلاق پر پابندی عائدکرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عرضی گذار بینظیر حنا نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ وہ مرکزی حکومت کو ایسے گائیڈ لائنز یا رہنما اُصول تیار کرنے کا حکم دے جو صنفی اور مذہبی لحاظ سے غیر جانبدار ہوں اور مرد و عورت دونوں کے طلاق کے لیے یکساں بنیادوں اور یکساں طریقہ کار پر مبنی ہوں۔
بینظیر حنا نے طلاق حسن کو انسانی حقوق اور انسانی مساوات کے مخالف قرار دیتے ہوئے اس کو اسلامی عقیدے کا حصہ ہونے سے انکار کیا ہے۔ انہوں نے طلاق حسن کو ستی جیسے عمل سے مشابہت دی تھی۔ واضح رہے کہ ہندو دھرم کے مطابق ستی کے تحت شوہر کی موت ہوجانے پر اس کی بیوی کو اپنے شوہر کی چتا پر زندہ جل جانا چاہئے۔ بھارت میں گوکہ ستی کا عمل غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے تاہم اس کے واقعات کبھی کبھی پیش آجاتے ہیں۔