نئی دہلی: جون 2019 میں اترپردیش کی اے ٹی ایس نے اسلامک دعوت سینٹر سے منسلک ڈاکٹر عمر گوتم اور مفتی جہانگیر قاسمی کو ہزاروں ہندوؤں کو غیرقانونی طریقے سے اسلام مذہب قبول کروانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا، الزامات میں دھوکا دھڑی، سازش اور مذہبی فرقوں کے درمیان نفرت و فساد بھڑکانے کی کوشش اور لالچ و ڈرا دھمکا کر مذہب تبدیل کرانے کی دفعات شامل کی تھیں۔
اسی ایف آئی آر کے تحت معروف عالم دین مولانا کلیم صدیقی کو بھی آے ٹی ایس اترپردیش نے گرفتار کیا ہے۔ اب تک اس مقدمہ میں عدالتی ریکارڈ کے مطابق ملک بھر سے 16 افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔
مولانا کلیم صدیقی کے وکیل ابو بکر سباق سے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے بات کی جس میں انہوں نے بتایا کہ مولانا کلیم صدیقی اور اس مقدمے کے دیگر تمام ملزمان کے خلاف اے ٹی ایس کے پاس کوئی ثبوت یا گواہ موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذہبی ادارے قائم کرنا اور اپنے مذہب کی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت کرنا، اپنی مرضی سے مذہب قبول کرنے والے افراد کے قانونی کاغذات تیار کروانا، ہمارے ملک میں جرم نہیں ہے بلکہ دستور ہند میں تحریر بنیادی حقوق میں شامل ہے۔
ایڈوکیٹ ابوبکر سباق نے کہا کہ نظام عدلیہ کی سست رفتاری انصاف حاصل کرنے کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ انصاف کا بنیادی تقاضا ہے کہ ملزم کو جرم ثابت ہونے تک جیل میں نہیں رکھا جانا چاہیے لیکن ہماری جیلوں میں چار لاکھ سے زائد افراد قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں جن میں اکثریت زیر سماعت ملزمین کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر مولانا کلیم صدیقی، عمر گوتم اور مفتی جہانگیر کا کیس فاسٹ ٹریک عدالت میں جاتا ہے تو تین ماہ کے اندر اس کیس کا فیصلہ ہو جائے گا اور تمام لوگ باعزت بری ہوکر جیل سے رہا ہوں گے۔
مزید پڑھیں: یو پی اے ٹی ایس کا مولانا کلیم صدیقی پر ٹرسٹ کی رقم ٹھکانے لگانے کا الزام
واضح رہے کہ مبلغ اسلام ڈاکٹر عمر گوتم اور مفتی جہانگیر قاسمی کو گرفتار ہوئے چار ماہ سے زیادہ وقفہ گزر چکا ہے حالانکہ یو پی اے ٹی ایس ابھی تک کچھ بھی ثابت نہیں کر پائی ہے لیکن اس کے باوجود وہ جیل میں قید ہیں۔