بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے امیر شریعت و جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کے سجادہ نشیں مولانا احمد ولی فیصل رحمانی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کا کہنا کہ پردہ اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہے یہ سراسر خلاف حقیقت ہے، مذہب کی تشریح کرنا مذہب کے ماہرین کا کام ہے، عدالت کا نہیں۔ عدالت نے لازمیت کی تحقیق کا استعمال کرتے ہوئے حجاب کی لازمیت کو غلط تعبیر کیا ہے، تاہم ہم توہین عدالت نہیں کر رہے لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب کے احکام کی تشریح عدالت کے دائرہ کار سے باہر ہے، عدالت کی جانب سے مذہبی احکام میں لازمی اور غیر لازمی باتوں کا طے کرنا مذہبی آزادی پر قدغن لگانے جیسا ہے۔ Exclusive Interview Ameere Shriyat Maulana Faisal Rahmani
انہوں نے کہا کہ آج ضرورت ہے کہ ہم برادران وطن کو اپنے مذہبی تشخص کے بارے میں بتائیں، ہم اس سے دستبردار نہیں ہو سکتے، جس طرح ہندو، سکھ عیسائی اپنے مذہبی تشخص کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں، ہم بھی اپنے دین کی اتباع کررہے ہیں۔ ہم کچھ نیا نہیں کر رہے بلکہ ہمارا جو مذہبی فریضہ ہے اسے انجام دے رہے ہیں اور اسے روکنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔
مزید پڑھیں:۔ انتخاب امیر شریعت مکمل دستوری ہے، لوگ بدگمانی سے بچیں: نائب امیر شریعت
امیر شریعت نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ تمام مسلم خواتین پردہ کا اہتمام تو نہیں کرتیں، میں کہتا ہوں نماز اور روزہ کا اہتمام بھی تمام مسلمان نہیں کرتے، تو کیا یہ اسلام کا حصہ نہیں ہے؟ یہ جمہوری ملک ہے ہم کسی پر زبردستی نہیں کر سکتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لوگ مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے ہمیں پرہیز کرنا چاہیے، لیکن اگر مذہب یا ہمارے تشخص پر حملہ ہو تو زبان بند رکھنا بھی بزدل کی علامت ہے، ہمیں اس کے خلاف مظاہرہ کرنا چاہئے۔