عید الاضحٰی کو انسانی تاریخ کے جس اہم واقعہ سے نسبت ہے وہ آج کے حالات سے بہت گہرا تعلق رکھتا ہے۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کو "اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الۡبَلٰٓؤُا الۡمُبِيۡنُ" (الصافات - 106)"یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی"سے تعبیر کیا ہے۔ یہ کھلی آزمائش کیا تھی اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مجید میں بڑی تفصیل سے اسے بیان کیا ہے۔ یہ کوئی پہلی آزمائش نہ تھی جس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام دوچار کئے گئے، اس سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں پے درپے بہت سی آزمائشوں سے گزارا اور وہ یکے بعد دیگرے سرخروئی کے ساتھ ہر آزمائش سے گزرتے اور کامیابی کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کامیابی کا جو راز ہے دراصل وہی پورے واقعہ کا حاصل اور قیامت تک تمام انسانوں کی کامیابی کے لئے نسخہ کیمیا ہے، "يٰۤاَبَتِ افۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ"(الصافات - 102) "ابا جان ، جو کچھ آپ کو(اللہ تعالیٰ کی طرف سے) حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے"۔ یہ الفاظ ایک سعادت مند بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی زبان سے ادا ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد دنیا باپ بیٹے کی جانب سے مکمل طور پر اللہ کے حکم کے سامنے بلا چوں چرا جھک جانے کے عمل کا مشاہدہ کرتی ہے۔ "فَلَمَّاۤ اَسۡلَمَا وَتَلَّهٗ لِلۡجَبِيۡنِۚ (الصافات -103) "پھر جب ان دونوں نے فرمانبرداری کی روش اختیار کر لی اور ابراہیمؑ نے اس (بیٹے) کو ماتھے کے بل لٹادیا"۔ یہ وہ منظر ہے جس کا نظارہ دنیا نے نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا ہے اور نہ قیامت تک وہ کبھی دیکھے گی،
عید الاضحٰی اس بات کا بیان ہے کہ آزمائش پر دنیا کے عظیم تر باپ بیٹے کے پورا اترتے ہی اللہ کی رحمت جوش میں آگئی۔ اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو آواز دی"يّٰۤاِبۡرٰهِيۡمُۙ-قَدۡ صَدَّقۡتَ الرُّءۡيَا"(الصافات :104-105) "آئے ابراہیم۔ تم نے خواب سچ کر دکھایا"۔ اس کے انعام کے طور پر اللہ نے فدیہ کی شکل میں "ذبح عظیم" سے بھی نوازا اور فرمایا کہ "اِنَّا كَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُحۡسِنِيۡنَ(الصافات-105) " یقیناً ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں محسنین کو"۔ اسی سورہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کو بیان کرنے سے پہلے متصلا حضرت نوح علیہ السلام کی آزمائش کا تذکرہ کیا گیا ہے اور دونوں آزمائشوں کو تقریباً یکساں اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کے اللہ کی طرف متوجہ ہونے اور اس سے فریاد کرنے کو اس طرح بیان کیا ہے کہ "نَادٰٮنَا نُوۡحٌ" (الصافات -75)"ہم کو نوح نے پکارا تھا" اس کے جواب میں اللہ فرماتا ہے کہ "وَنَجَّيۡنٰهُ وَاَهۡلَهٗ مِنَ الۡكَرۡبِ الۡعَظِيۡمِ(الصافات -76)"ہم نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو کرب عظیم سے بچالیا"۔ اس تعلق سے اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کی تعریف کی اور اپنی نوازش کا تذکرہ بھی کیا۔ فرمایا کہ" سَلٰمٌ عَلٰى نُوۡحٍ فِى الۡعٰلَمِيۡنَ-اِنَّا كَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُحۡسِنِيۡنَ(الصافات :79-80)۔"سلام ہے نوحؑ پر تمام دینا والوں میں۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیا کرتے ہیں"۔ حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی آزمائشوں کا ہی معاملہ نہیں ہے، حضرت ایوب علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی مشکلات اور آزمائشیں آئیں، متعدد انبیاء علیہم السلام نے شہادت نوش کی اور پھر آخری رسول، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آزمائشوں سے گزارا گیا اور ثابت قدم رہنے پر انعام و کامیابی کی بارش ہوئی۔
عید الاضحٰی دراصل اس سبق کو بار بار دہرانا ہے کہ انبیاء ورسل کو آزمائشوں سے گزارا جانا اور کامیابی پر انعام و اکرام کی بارش کا ہونا اللہ کی ایک سنت ہے۔ "وَتِلۡكَ الۡاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيۡنَ النَّاسِۚ وَلِيَـعۡلَمَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَيَتَّخِذَ مِنۡكُمۡ شُهَدَآءَؕ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيۡنَۙ(آل عمران-140)"یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں ۔ اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اللہ دیکھ لے کہ کون حقیقتاً مومن ہیں، اور وہ چاہتا ہے ان لوگوں کو چھانٹ لے جو واقعی(راستی کے) گواہ ہوں۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ہے"۔ اللہ کی اس سنت کو قیامت تک جاری رہنا ہے اور اس سے دنیا میں ہر دور میں تمام انسانوں کو گزرنا ہے۔ وَلَنَبۡلُوَنَّكُم بِشَيۡءٖ مِّنَ ٱلۡخَوۡفِ وَٱلۡجُوعِ وَنَقۡصٖ مِّنَ ٱلۡأَمۡوَٰلِ وَٱلۡأَنفُسِ وَٱلثَّمَرَٰتِۗ" (البقرہ - 155) "اور ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور ثمرات کے نقصان سے"۔ اس وقت خاص طور پر اپنے ملک میں دیکھیں، اپنے گردوپیش دیکھیں، آزمائش کے تعلق سے کون سی چیز بچی ہوئی ہے جس کے ذریعہ سے مسلمانوں کو آزمایا نہ جارہا ہو۔ ان میں سے خوف کا دائرہ سب سے وسیع ہے اور ہر آنے والے دن میں یہ مزید وسیع ہوتا چلا جارہا ہے۔ گلی، کوچے، محلے، سڑک، بازار، شہر، دیہات حتی کہ گھر، دوار تک میں اس کی آہٹ صاف سنائی دیتی ہے اور دلوں کو لرزاتی رہتی ہے۔ حالات کی شدت تو اس حد تک ہے کہ جان 'منہ' کو آجاتی ہے۔ اس پر جان، مال، زمین، جائداد، تجارت و کاروبار پر آفت کا لامتناہی سلسلہ الگ ہے۔ نت نئے فتنے ہر آن منہ پھاڑے کھڑے رہتے ہیں۔ اگر دیکھیں تو آج کے حالات حضرت ابراہیم علیہ السلام کی "کھلی آزمائش"، حضرت نوح علیہ السلام کا "کرب عظیم" اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کے اس فرمان کہ "ہم تمہیں لازماً آزمائیں گے" کی ہی ایک کڑی اور اسی سلسلہ کا حصہ ہیں۔
عید الاضحٰی حالات سے نبردآزمائی کا خدائی پیغام لائی ہے۔ یہ بتارہی ہے کہ موجودہ حالات میں، دور حاضر میں مسلمانوں کو ان آزمائشوں کا سامنا اسی طرح کرنا ہوگا جس طرح دنیا کی مذکورہ شخصیات نے کیا۔ اسی استقلال کا مظاہرہ کرنا ہوگا جیسا انہوں نے کیا۔ صبر کا دامن اسی طرح تمام مسلمانوں کو تھامنا ہوگا جس طرح انہوں نے تھاما۔ مسلمانوں کو اطاعت و فرمانبرداری میں انبیاء ورسل کے نقش قدم پر چلنا ہو گا۔ " پھر جب ان دونوں (حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام) نے فرمانبرداری کی روش اختیار کر لی" سے رہنمائی حاصل کرنی ہوگی۔ مسلمانوں کو اپنے افکار، نظریات، تصورات، عقائد، عقیدت، عبادت، گفتار، کردار، معاملات، بود و باش غرض زندگی کے تمام شعبوں میں سچے جزبہ کے ساتھ اللہ کی فرمانبرداری اختیار کرنی ہوگی۔ اپنی انا، ذات، مفادات کو خاک میں ملانا ہوگا۔ اپنے وجود کو " ماتھے کے بل" لٹانا ہوگا۔ پیشانی کو خاک آلود کرنا ہوگا۔ اپنی ناک کو اللہ کے حضور رگڑنا ہوگا۔ اللہ کے احکامات و ہدایات کی اپنے کردار سے تصدیق کرنی ہوگی۔ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اسپرٹ کو سمجھنا ہوگا کہ عَنْ أَبُو هُرَيْرَةَ، يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُصِبْ مِنْهُ" (بخاری - 5645) "اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے تکالیف میں مبتلا کرتا ہے"۔ تب ہی اللہ کی رحمت جوش میں آئے گی، بلاؤں، مصیبتوں، آزمائشوں کا دور ختم ہوگا اور امت اس نوید خداوندی کا خود کو مستحق بنا پائے گی کہ"اُولٰٓئِكَ۔ عَلَيۡهِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةٌ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُهۡتَدُوۡنَ(البقرہ - 157) " ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی، اُس کی رحمت اُن پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ راست رَو ہیں"۔