ETV Bharat / bharat

Eid al-Adha 2023 عید الاضحیٰ ابتلا و آزمائش میں ثابت قدمی کا پیغام

عید الاضحیٰ دور حاضر میں امت مسلمہ کے لیے ایک خاص پیغام رکھتی ہے۔ موجودہ صورت حال میں عید قرباں امت مسلمہ کو احساس دلاتی ہے کہ وہ 'ذبح عظیم 'بڑی قربانی کی پاسدار ہے۔ وہ دین حنیف کی پاسباں ہی نہیں اس کی داعی بھی ہے۔ دنیا اسے الٹے پاؤں جہالت میں واپس لے جانے کے درپے کیوں نہ ہو اسے اپنے مقام سے سرمو نہ تو کھسکنا ہے اور نہ اپنے کردار سے دستبردار ہونا ہے۔

Eid al-Adha 2023
Eid al-Adha 2023
author img

By

Published : Jun 29, 2023, 6:07 AM IST

عیدالاضحیٰ سنت براہیمی کا احیاء واعادہ اور خراج عقیدت ہے جس طرح عید الفطر ماہ رمضاں کا شکرانہ ہے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اکرمؐ سے صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ"یا رسول اللہ! ما ہذہ الأضاحی؟ قال: سنة أبیکم ابراہیم علیہم السلام"(مسند احمد، ترمذی ، ابن ماجہ)۔ "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ قربانی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے"۔اسی حدیث میں یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام نے مزید یہ بھی دریافت کیا کہ "فما لنا فیھا یا رسول اللہ؟ قال: بکل شعرة حسنة"صحابہ نے عرض کیا کہ"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!پھر اس میں ہمارے لئے کیا (اجر وثواب)ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی"۔ حضرت ابراہیمؑ کی یہ وہ قربانی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بہت ہی عظیم قرار دیا ہے۔ " وَنادَيناهُ أَن يا إِبراهيمُ۔ قَد صَدَّقتَ الرُّؤيا ۚ إِنّا كَذٰلِكَ نَجزِي المُحسِنينَ۔ إِنَّ هٰذا لَهُوَ البَلاءُ المُبينُ۔ وَفَدَيناهُ بِذِبحٍ عَظيمٍ"(الصافات410-710)۔"اور ہم نے ندا دی کہ "اے ابراہیمؑ۔ تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی"۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا"۔ اس قربانی کو عظیم قرار دینا، اس کی یاد میں اس عمل کو جسے اللہ تعالیٰ نے سنت براہیمی کہا ہے مسلسل عیدالاضحیٰ کے دنوں میں دہرایاجانا، خوشی کے لمحات اور عید سعید کوان دنوں میں منایا جانا یہ سب عظیم قربانی کی وجہ سے ہے۔

یہ قربانی عظیم اس لئے ٹھہری کہ حضرت ابراہیمؑ نے حکم الٰہی کی تعمیل میں اپنے جگر گوشے کو پیش کردیا تھا۔اس عمل کو آنکھیں دیکھ نہ سکتی تھیں کیونکہ ان پر اس وجہ سے پٹّی باندھ لی گئی تھی تاکہ محبت پدری ہاتھوں کو لرزا نہ دے۔ دل حکم الٰہی کی تعمیل میں سجدہ ریز تھا، زبان ذکر میں مشغول تھی اور ہاتھ اطاعت وفرمابرداری میں مصروف تھا۔ چھری چلی، خون بہااور قربانی دیدی گئی ۔ آنکھوں پر پٹّی باندھے حضرت ابراہیمؑ کو کب معلوم تھا کہ ان کے ہاتھوں ذبح ہونے والی جان بیٹے کی نہیں دمبے کی ہے جسے اللہ نے بیٹے کی جگہ بدل دیا اور ان کی چھری بیٹے کے بجائے دمبے کی گردن پر چلی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے پورے ہوش وحواس اور عزم وارادے کے ساتھ اپنے بیٹے اسمٰعیل کو ذبح کیا تھا۔ یہی وہ ' کھلی آزمائش' تھی جس میں حضرت ابراہیمؑ پورے اترے تھے۔ بڑے امتحان میں حاصل ہونے والی کامیابی بھی بڑی ہوتی ہے اور اس پر ملنے والاانعام بھی غیر معمولی ہوتا ہے۔ اللہ کو یقینا اسمٰعیل کی قربانی لینا مقصود نہ تھا، مقصد تو امتحان تھا جس میں وہ کامیاب ہوگئے ۔ ادھرکامیابی ملی ادھر اس کا انہیں انعام بھی ملا کہ " ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا"۔ نبی ؑ کی فرمابرداری اور نبی زادہ کی سعادت مندی اللہ کے یہاں اس پائے کو پہنچی کہ قیامت تک کے لئے یاد گار بنا دی گئی۔ یہی نہیں بلکہ اس عمل کو سنت براہیمی قرار دیدیا گیا اور امت محمدیہ میں اسے جاری کردیا گیا۔ "قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سنت جاری کردی کہ اسی تاریخ کو تمام اہل ایمان دنیا بھر میں جانور قربان کریں اور وفاداری وجاں نثاری کےاس عظیم الشان واقعہ کی یاد تازہ کرتے رہیں" (تلخیص تفہیم القرآن۔ص 702)

عیدالا ضحیٰ کے موقع پر قربانی کےدنوں میں امت محمدیہ کے ہر صاحب حیثیت کے لئے لازم ہے کہ وہ سنت براہیمی پر عمل پیرا ہو۔ اللہ کے حضور عہد کرے کہ اس کا جانور کی قربانی دینے کا عمل اس بات کے اظہار کے لئے ہے کہ جب جب جس نوعیت اور جس سطح کی قربانی دینے کی ضرورت پیش آئے گی وہ کبھی بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ جو صاحب حیثیت نہیں ہیں ان سے بھی یہ عمل تقاضہ کرتا ہے وہ بھی ہمہ وقت ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے خود کو تیار رکھیں ۔ قربانی کے گوشت کو اعزاء واقرباء، دوست واحباب ، قرب وجوار اور غرباء ومساکین میں تقسیم کرنے کا عمل بھی ایک خاص حکمت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جس طرح صدقۂفطرکی ادائیگی سے پوری امت عیدالفطر کی خوشیوں میں اور گوشت کو تقسیم کرکےعیدالاضحیٰ کی خوشیوں میں شریک ہوتی ہےاسی طرح اطاعت وفرمابرداری،جاں نثاری اور قربانی میں بھی پوری کی پوری امت شریک اور ایک دوسرے کی معاون ومدد گار ہے۔ وقت پڑنے پر قربانی دینے میں رخصت نہیں عزیمت سے کام لیا جائے گااور یہ امت کے چند لوگوں تک مخصوص نہیں ہوگا بلکہ تمام کے تمام لوگ اس کام میں حسب صلاحیت و ضرورت برابر کے شریک ہوں گے۔

عیدالاضحیٰ کے موقع پر امت محمدیہ پوری دنیا میں سنت براہیمی کوادا کرتی ہے اور انہیں ذبح عظیم پر خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ اسی کے ساتھ دنیا کےان تمام خطوں میں جہاں کہیں وہ رہتی اور آتی جاتی ہےاورسال کے بارہ مہینے قربانی کے عمل کو دہراتی رہتی ہے۔ جان ومال، علم وعمل، ذہن وفکر، فسلفہ ونظریہ غرض زندگی کے تمام شعبوں میں قربانی دینے میں عزیمت سے کام لینے کا عمل ایک دو دن کا نہیں ہے ۔ آغاز اسلام کی آزمائشوں سے لے کر دور حاضر کی پئے در پئے آنے والی آفات ومصائب ،ابتلاءوآزمائش میں افراد امت ثابت قدم رہتے ہیں۔ حسب موقع وصلاحیت ہر قسم کی قربانی دے کر اطاعت ، فرمابرداری اورجاں نثاری کا مظاہرہ کرتے ہیں جسے دیکھ کر دنیا انگشت بہ دنداں رہ جاتی ہے۔ اغیار کی طرف سے نازل ہونے والی آفات اور ڈھائے جانے والے قہر پر افراد امت یاس و قنوط کا شکار نہیں ہوتے۔ اسے وہ اپنے لئے ابتلاء وآزمائش او ر اپنی رگوں میں حرارت ایمانی کے پیدا ہونے کا موثر ذریعہ تصور کرتے ہیں۔ اس امید ورجاء کے ساتھ قہر کے دریاؤں میں چھلانگ لگاتے اور ظلم کے انگاروں پر مسکراتے ہوئے چل پڑتے ہیں کہ انہیں پار کرتے ہی کامیابی ان کے قدم ضرور چومے گی۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایک بار نہیں باربار کامیابی نے ان کے قدموں کو بوسہ دیا ہے اور ان کی قربانی کی عظمت کو زمانے نے سلام کیا ہے۔ عید الاضحیٰ اسی عظمت وعزیمت کا جشن اور ابتلاء وآزمائش میں ثابت قدمی کی تلقین ہے۔

مزید پڑھیں: Shahi Imam عیدالاضحی پر شرپسندوں پر لگام لگانے کا سرکار سے مطالبہ

عید الاضحیٰ دور حاضر میں امت مسلمہ کے لئے ایک خاص پیغام رکھتی ہے۔ اس دور کو امت محمدیہ اپنے درون میں ضعف ایمانی کے دور سے تعبیر کرتی ہے۔ امت محمدیہ سے ماورا دنیا امت محمدیہ کو بےقیمت وبےوزن گردانتی ہے اور بار بار اسے یہ باور کراتی ہے کہ اس دور میں وہ کمتر تنکے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہے۔ اسے یہ احساس دلانے کی کوشش کرتی ہے کہ اس وقت وہ دنیا کے لئے غیر مفید ہی نہیں، مضر ثابت ہو رہی ہے۔ اس غرض سے دنیا میں وقوع پزیر واقعات و حوادث اس سے منسوب کردیے جاتے ہیں۔ اگر کہیں کچھ نہیں ہوتا ہے تو فرضی ویڈیوز تیار کر لیے جاتے ہیں اور ان کی مدد سےامت مسلمہ کو تاراج کرنے کی کوشش شروع کردی جاتی ہے۔ یہ اس لئے ہورہا ہے کہ امت مسلمہ سے ماورا دنیا چاہتی ہے کہ امت مسلمہ ایک بار پھر ان ہی گمراہیوں اور برائیوں میں گم ہو جائے جسے اس نے ترک کرکے ہدایت ربانی کا دامن تھام لیا ہے اور نور ہدایت سے دنیا کو منور کرنے کا بیڑا بھی اٹھالیا ہے۔ جب کہ یہ ماورا دنیا آج تک ان گمراہیوں اور برائیوں کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی ہے اور وہ امت مسلمہ کو بھی اسی راہ پر لگانا چاہتی ہے۔ ایسا ہونے پر ماورا دنیا اپنے عیش وعشرت کی خاطر ظلم وعدوان پر مبنی اس نظام کو قائم ودائم رکھ سکے گی جس نے انسانوں سے انسانیت، خواتین سے عفت وپاک دامنی، بچوں سے معصومیت، بچیوں سے ردائے حیا، غریبوں سے روٹی اور پیاسوں سے پانی کو چھین کر بہیمیت سے بھی بدتر کلچر کو فروغ دیا ہے۔ اسے اندیشہ ہی نہیں یقین ہے کہ اس وقت دنیا کو ایک بار پھر اگر کوئی اس کی اصل جگہ پر لاکر رکھ سکتا ہے تو وہ یہی امت مسلمہ ہے لہذا وہ اس کی دشمن بن بیٹھی ہے۔ اس صورت حال میں عیدالاضحیٰ امت مسلمہ کو احساس دلاتی ہے کہ وہ 'ذبح عظیم 'بڑی قربانی کی پاسدار ہے۔ اسے ان حالات سے نہ تو کبیدہ خاطر ہونا ہے اور نہ ہی بے راہ رو ہونا ہے۔ اشتعال انگیزی اور جذباتیت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس کا حصہ تو" البَلاءُ المُبينُ" "کھلی آزمائش" میں سرخ رو ہونے اور" وَإِن تَصبِروا وَتَتَّقوا فَإِنَّ ذٰلِكَ مِن عَزمِ الأُمورِ "(آل عمران: 186)" اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے" میں ہے۔ وہ دین حنیف کی پاسباں ہی نہیں اس کی داعی بھی ہے۔ دنیا اسے الٹے پاؤں جاہلیت اور جہالت میں واپس لے جانے کے درپے کیوں نہ ہو اسے اپنے مقام سے سرمو نہ تو کھسکنا ہے اور نہ اپنے کردار سے دستبردار ہونا ہے۔ اسے تو ہر آن وہر جگہ یہی صدا بلند کرنی ہے کہ "فصدقناه، وآمنا به واتبعناه على ما جاء به"(منتظم في تاريخ الملوك والأمم،ج 2ص382)۔"پس ہم نے آپؐ کی تصدیق کی اور آپؐ پر ایمان لائے۔ ہم نے آپؐ کی پیروی کی ان تمام چیزوں میں جو آپؐ لائے"۔

عیدالاضحیٰ سنت براہیمی کا احیاء واعادہ اور خراج عقیدت ہے جس طرح عید الفطر ماہ رمضاں کا شکرانہ ہے۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اکرمؐ سے صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ"یا رسول اللہ! ما ہذہ الأضاحی؟ قال: سنة أبیکم ابراہیم علیہم السلام"(مسند احمد، ترمذی ، ابن ماجہ)۔ "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ قربانی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے"۔اسی حدیث میں یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام نے مزید یہ بھی دریافت کیا کہ "فما لنا فیھا یا رسول اللہ؟ قال: بکل شعرة حسنة"صحابہ نے عرض کیا کہ"یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!پھر اس میں ہمارے لئے کیا (اجر وثواب)ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(جانور کے) ہر بال کے بدلے ایک نیکی"۔ حضرت ابراہیمؑ کی یہ وہ قربانی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بہت ہی عظیم قرار دیا ہے۔ " وَنادَيناهُ أَن يا إِبراهيمُ۔ قَد صَدَّقتَ الرُّؤيا ۚ إِنّا كَذٰلِكَ نَجزِي المُحسِنينَ۔ إِنَّ هٰذا لَهُوَ البَلاءُ المُبينُ۔ وَفَدَيناهُ بِذِبحٍ عَظيمٍ"(الصافات410-710)۔"اور ہم نے ندا دی کہ "اے ابراہیمؑ۔ تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی"۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا"۔ اس قربانی کو عظیم قرار دینا، اس کی یاد میں اس عمل کو جسے اللہ تعالیٰ نے سنت براہیمی کہا ہے مسلسل عیدالاضحیٰ کے دنوں میں دہرایاجانا، خوشی کے لمحات اور عید سعید کوان دنوں میں منایا جانا یہ سب عظیم قربانی کی وجہ سے ہے۔

یہ قربانی عظیم اس لئے ٹھہری کہ حضرت ابراہیمؑ نے حکم الٰہی کی تعمیل میں اپنے جگر گوشے کو پیش کردیا تھا۔اس عمل کو آنکھیں دیکھ نہ سکتی تھیں کیونکہ ان پر اس وجہ سے پٹّی باندھ لی گئی تھی تاکہ محبت پدری ہاتھوں کو لرزا نہ دے۔ دل حکم الٰہی کی تعمیل میں سجدہ ریز تھا، زبان ذکر میں مشغول تھی اور ہاتھ اطاعت وفرمابرداری میں مصروف تھا۔ چھری چلی، خون بہااور قربانی دیدی گئی ۔ آنکھوں پر پٹّی باندھے حضرت ابراہیمؑ کو کب معلوم تھا کہ ان کے ہاتھوں ذبح ہونے والی جان بیٹے کی نہیں دمبے کی ہے جسے اللہ نے بیٹے کی جگہ بدل دیا اور ان کی چھری بیٹے کے بجائے دمبے کی گردن پر چلی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے پورے ہوش وحواس اور عزم وارادے کے ساتھ اپنے بیٹے اسمٰعیل کو ذبح کیا تھا۔ یہی وہ ' کھلی آزمائش' تھی جس میں حضرت ابراہیمؑ پورے اترے تھے۔ بڑے امتحان میں حاصل ہونے والی کامیابی بھی بڑی ہوتی ہے اور اس پر ملنے والاانعام بھی غیر معمولی ہوتا ہے۔ اللہ کو یقینا اسمٰعیل کی قربانی لینا مقصود نہ تھا، مقصد تو امتحان تھا جس میں وہ کامیاب ہوگئے ۔ ادھرکامیابی ملی ادھر اس کا انہیں انعام بھی ملا کہ " ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا"۔ نبی ؑ کی فرمابرداری اور نبی زادہ کی سعادت مندی اللہ کے یہاں اس پائے کو پہنچی کہ قیامت تک کے لئے یاد گار بنا دی گئی۔ یہی نہیں بلکہ اس عمل کو سنت براہیمی قرار دیدیا گیا اور امت محمدیہ میں اسے جاری کردیا گیا۔ "قیامت تک کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سنت جاری کردی کہ اسی تاریخ کو تمام اہل ایمان دنیا بھر میں جانور قربان کریں اور وفاداری وجاں نثاری کےاس عظیم الشان واقعہ کی یاد تازہ کرتے رہیں" (تلخیص تفہیم القرآن۔ص 702)

عیدالا ضحیٰ کے موقع پر قربانی کےدنوں میں امت محمدیہ کے ہر صاحب حیثیت کے لئے لازم ہے کہ وہ سنت براہیمی پر عمل پیرا ہو۔ اللہ کے حضور عہد کرے کہ اس کا جانور کی قربانی دینے کا عمل اس بات کے اظہار کے لئے ہے کہ جب جب جس نوعیت اور جس سطح کی قربانی دینے کی ضرورت پیش آئے گی وہ کبھی بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ جو صاحب حیثیت نہیں ہیں ان سے بھی یہ عمل تقاضہ کرتا ہے وہ بھی ہمہ وقت ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے خود کو تیار رکھیں ۔ قربانی کے گوشت کو اعزاء واقرباء، دوست واحباب ، قرب وجوار اور غرباء ومساکین میں تقسیم کرنے کا عمل بھی ایک خاص حکمت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جس طرح صدقۂفطرکی ادائیگی سے پوری امت عیدالفطر کی خوشیوں میں اور گوشت کو تقسیم کرکےعیدالاضحیٰ کی خوشیوں میں شریک ہوتی ہےاسی طرح اطاعت وفرمابرداری،جاں نثاری اور قربانی میں بھی پوری کی پوری امت شریک اور ایک دوسرے کی معاون ومدد گار ہے۔ وقت پڑنے پر قربانی دینے میں رخصت نہیں عزیمت سے کام لیا جائے گااور یہ امت کے چند لوگوں تک مخصوص نہیں ہوگا بلکہ تمام کے تمام لوگ اس کام میں حسب صلاحیت و ضرورت برابر کے شریک ہوں گے۔

عیدالاضحیٰ کے موقع پر امت محمدیہ پوری دنیا میں سنت براہیمی کوادا کرتی ہے اور انہیں ذبح عظیم پر خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ اسی کے ساتھ دنیا کےان تمام خطوں میں جہاں کہیں وہ رہتی اور آتی جاتی ہےاورسال کے بارہ مہینے قربانی کے عمل کو دہراتی رہتی ہے۔ جان ومال، علم وعمل، ذہن وفکر، فسلفہ ونظریہ غرض زندگی کے تمام شعبوں میں قربانی دینے میں عزیمت سے کام لینے کا عمل ایک دو دن کا نہیں ہے ۔ آغاز اسلام کی آزمائشوں سے لے کر دور حاضر کی پئے در پئے آنے والی آفات ومصائب ،ابتلاءوآزمائش میں افراد امت ثابت قدم رہتے ہیں۔ حسب موقع وصلاحیت ہر قسم کی قربانی دے کر اطاعت ، فرمابرداری اورجاں نثاری کا مظاہرہ کرتے ہیں جسے دیکھ کر دنیا انگشت بہ دنداں رہ جاتی ہے۔ اغیار کی طرف سے نازل ہونے والی آفات اور ڈھائے جانے والے قہر پر افراد امت یاس و قنوط کا شکار نہیں ہوتے۔ اسے وہ اپنے لئے ابتلاء وآزمائش او ر اپنی رگوں میں حرارت ایمانی کے پیدا ہونے کا موثر ذریعہ تصور کرتے ہیں۔ اس امید ورجاء کے ساتھ قہر کے دریاؤں میں چھلانگ لگاتے اور ظلم کے انگاروں پر مسکراتے ہوئے چل پڑتے ہیں کہ انہیں پار کرتے ہی کامیابی ان کے قدم ضرور چومے گی۔ تاریخ شاہد ہے کہ ایک بار نہیں باربار کامیابی نے ان کے قدموں کو بوسہ دیا ہے اور ان کی قربانی کی عظمت کو زمانے نے سلام کیا ہے۔ عید الاضحیٰ اسی عظمت وعزیمت کا جشن اور ابتلاء وآزمائش میں ثابت قدمی کی تلقین ہے۔

مزید پڑھیں: Shahi Imam عیدالاضحی پر شرپسندوں پر لگام لگانے کا سرکار سے مطالبہ

عید الاضحیٰ دور حاضر میں امت مسلمہ کے لئے ایک خاص پیغام رکھتی ہے۔ اس دور کو امت محمدیہ اپنے درون میں ضعف ایمانی کے دور سے تعبیر کرتی ہے۔ امت محمدیہ سے ماورا دنیا امت محمدیہ کو بےقیمت وبےوزن گردانتی ہے اور بار بار اسے یہ باور کراتی ہے کہ اس دور میں وہ کمتر تنکے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہے۔ اسے یہ احساس دلانے کی کوشش کرتی ہے کہ اس وقت وہ دنیا کے لئے غیر مفید ہی نہیں، مضر ثابت ہو رہی ہے۔ اس غرض سے دنیا میں وقوع پزیر واقعات و حوادث اس سے منسوب کردیے جاتے ہیں۔ اگر کہیں کچھ نہیں ہوتا ہے تو فرضی ویڈیوز تیار کر لیے جاتے ہیں اور ان کی مدد سےامت مسلمہ کو تاراج کرنے کی کوشش شروع کردی جاتی ہے۔ یہ اس لئے ہورہا ہے کہ امت مسلمہ سے ماورا دنیا چاہتی ہے کہ امت مسلمہ ایک بار پھر ان ہی گمراہیوں اور برائیوں میں گم ہو جائے جسے اس نے ترک کرکے ہدایت ربانی کا دامن تھام لیا ہے اور نور ہدایت سے دنیا کو منور کرنے کا بیڑا بھی اٹھالیا ہے۔ جب کہ یہ ماورا دنیا آج تک ان گمراہیوں اور برائیوں کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی ہے اور وہ امت مسلمہ کو بھی اسی راہ پر لگانا چاہتی ہے۔ ایسا ہونے پر ماورا دنیا اپنے عیش وعشرت کی خاطر ظلم وعدوان پر مبنی اس نظام کو قائم ودائم رکھ سکے گی جس نے انسانوں سے انسانیت، خواتین سے عفت وپاک دامنی، بچوں سے معصومیت، بچیوں سے ردائے حیا، غریبوں سے روٹی اور پیاسوں سے پانی کو چھین کر بہیمیت سے بھی بدتر کلچر کو فروغ دیا ہے۔ اسے اندیشہ ہی نہیں یقین ہے کہ اس وقت دنیا کو ایک بار پھر اگر کوئی اس کی اصل جگہ پر لاکر رکھ سکتا ہے تو وہ یہی امت مسلمہ ہے لہذا وہ اس کی دشمن بن بیٹھی ہے۔ اس صورت حال میں عیدالاضحیٰ امت مسلمہ کو احساس دلاتی ہے کہ وہ 'ذبح عظیم 'بڑی قربانی کی پاسدار ہے۔ اسے ان حالات سے نہ تو کبیدہ خاطر ہونا ہے اور نہ ہی بے راہ رو ہونا ہے۔ اشتعال انگیزی اور جذباتیت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس کا حصہ تو" البَلاءُ المُبينُ" "کھلی آزمائش" میں سرخ رو ہونے اور" وَإِن تَصبِروا وَتَتَّقوا فَإِنَّ ذٰلِكَ مِن عَزمِ الأُمورِ "(آل عمران: 186)" اگر ان سب حالات میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہو تو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے" میں ہے۔ وہ دین حنیف کی پاسباں ہی نہیں اس کی داعی بھی ہے۔ دنیا اسے الٹے پاؤں جاہلیت اور جہالت میں واپس لے جانے کے درپے کیوں نہ ہو اسے اپنے مقام سے سرمو نہ تو کھسکنا ہے اور نہ اپنے کردار سے دستبردار ہونا ہے۔ اسے تو ہر آن وہر جگہ یہی صدا بلند کرنی ہے کہ "فصدقناه، وآمنا به واتبعناه على ما جاء به"(منتظم في تاريخ الملوك والأمم،ج 2ص382)۔"پس ہم نے آپؐ کی تصدیق کی اور آپؐ پر ایمان لائے۔ ہم نے آپؐ کی پیروی کی ان تمام چیزوں میں جو آپؐ لائے"۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.