ہر دن متعدد اقسام کی لکڑیاں تو نظر آتی ہیں، کیا عام انسان اس بات کا تصور کرسکتا ہے کہ انسان کی شکل و مشابہت والی بھی لکڑیاں ہوتی ہیں، اگر ہوتی بھی ہیں تو عام طور پر پہچاننے کی قوتِ بینائی۔ نِگاہ ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی ہیں۔ دراصل قدرت کا یہ عجیب کرشمہ ہے کہ انسان جانور اور عجیب و غریب قسم کی شکلیں درختوں کے جڑوں، شاخوں اور تنوں میں ابھر آتی ہیں ایسی لکڑیوں کو ڈرفٹ ووڈ کہا جاتا ہے۔
عام آدمی جب ان لکڑیوں کو فنکاروں کی تلاش کے بعد دیکھتا ہے تو وہ حیرت زدہ ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ نے ہر کسی کو یہ نگاہ اور فن بخشا نہیں ہے کہ وہ ہو بہو انسان اور جانوروں کی شکلوں والی لکڑیوں کی پہچان اور تلاش کرسکے۔
اصل میں یہ لکڑیاں جنگلوں میں ہزاروں درختوں میں ایک دو ہی درخت میں ہوتی ہیں اور اوپر سے وہ کھالوں میں پنہاں ہوتی ہیں اور اس کی شاخ ایک دوسرے سے ملی ہوتی ہیں جسے پہچاننا بے حد مشکل ہوتا ہے تاہم کچھ فرد خداداد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں جو جنگلوں اور ندی و سمندری علاقوں میں جاکر نایاب لکڑیاں تلاش کرتے ہیں انہی میں ایک شہر گیا کے چھتہ مسجد محلے کے رہنے والے پیشے سے وکیل ایس ایس جاوید یوسف ہیں۔
جاوید یوسف اپنی فرصت کے ایام میں جنگلوں میں گھوم کر کڑی مشقت کے بعد سوکھی اور بے جان لکڑیوں کو اکٹھا کرتے ہیں جو انسان، جانور اور ابسٹریکٹ فارم میں ہوتی ہیں۔
خاص بات یہ ہے کہ جاوید یوسف ان لکڑیوں کو ذرا بھی تراشتے خراشتے نہیں اور کلر کا استعمال بھی نہیں کرتے ہیں بلکہ صرف کھال صاف کرکے وارنش اور جراثیم کش ادویات لگاتے ہیں تاکہ وہ دیمک سے محفوظ رہیں۔
قدرتی مصوری سے ابھری ہوئی شکلوں سے وہ چھیڑ چھاڑ نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کی اصل شکل کو بخوبی برقرار رکھتے ہیں جسے دیکھنے کے بعد نہ صرف تعجب ہوتا بلکہ عقل حیران ہوتی ہے۔
بچپن کا شوق پچپن پر حاوی ہے
ایڈووکیٹ جاوید یوسف گیا سول کورٹ میں پریکٹس میں ہیں اور ایڈیشنل پبلک پراسیکیوٹر بھی رہے۔ انہیں ڈرفٹ ووڈ آرٹ کا شوق بچپن سے ہے تاہم اب جب وہ 55 کی عمر پار کرگئے تو ان کا یہ شوق جنون میں تبدیل ہوگیا ہے، کورٹ کے کام کاج کی مصروفیات کے باوجود وہ مہینے میں کچھ دن جنگلوں میں گزارتے ہیں اور وہ نایاب لکڑیوں کی تلاش کرتے پھر تے ہیں۔
جاوید یوسف بتاتے ہیں کہ جب وہ چھوٹے تھے تو وہ ندی اور جنگلوں سے ایسی لکڑیوں کو گھر لایا کرتے تھے جب ان لکڑیوں کی کھال اتار کر دیکھتے تو وہ حیران ہوجاتے، انہیں اس کا فلسفہ سمجھ میں نہیں آیا تو انہوں نے اپنے والد جو سرکاری ملازمت میں ایک بڑے عہدے پر فائز تھے انہیں اس طرح کی لکڑیوں کو دکھایا اور اس کے تعلق سے سوال کیا جس پر والد نے بتایا کہ اسے ڈرفٹ ووڈ کہا جاتا ہے اور اس کی تلاش کرنا ایک آرٹ ہے۔
جاوید کہتے ہیں کہ والد نے ان کے اس ہنر اور آرٹ کی نہ صرف قدر کی بلکہ دعاؤں سے نوازا اور حوصلہ افزائی کی اور وقتاً فوقتاً ان لکڑیوں کے تعلق سے تحقیقی معلومات فراہم کی۔
جاوید بتاتے ہیں کہ قدرت کی مصوری کو تلاش کرنا پھر ان میں ابھری ہوئی شکلوں کو خوبصورت عنوان دے کر لفظوں میں پروکر فلسفیانہ طرز حقیقی زندگی سے مشابہت کرنا ایک طرح سے شغل میں شامل ہوگیا ہے۔
ڈرفٹ ووڈ اور غالب کے اشعارجاوید نے اپنے حساس خیالات و تصورات کے ذریعے ایک ایک ڈرفٹ ووڈ کو مرزا غالب کے اشعار کے مفہوم میں یوں پرو دیا ہے کہ گویا مرزا غالب نے اپنے سامنے ڈرفٹ ووڈ کو رکھ کر ہر ایک شعر کہا ہو۔
جاوید نے ڈرفٹ ووڈ کے ذریعے زندگی کے ہر نفس کو چھونے کی کوشش کی ہے، حسن و عشق کی لطافت زندگی کے سوز و گداز، رنج و غم لغزشوں پیہم کو کس خوبصورتی سے ڈرفٹ ووڈ میں فلسفیانہ انداز میں عیاں کردیا ہے گویا بے جان لکڑیوں میں یوں جان ڈال دیا کہ بس اب بول پڑیں گی۔
جاوید نے غالب کے اشعار اس طرح سے ہر لکڑی کے ساتھ سجایا ہے اور جاوید نے ڈرفٹ ووڈ اور غالب کے اشعار کو ملاکر ایک کتاب "غالب کی شاعری ایک نئے آہنگ میں" جو انگریزی اور اردو میں لکھا ہے جس میں ایک ڈرفٹ ووڈ پر اس شعر کو لکھا " شرم ایک ادائے ناز ہے، اپنے ہی سے سہی ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یوں حجاب میں، جبکہ ایک اور ڈرفٹ پر غالب کا شعر لکھتے ہیں" شوق رنگ رقیب سرو ساماں نکلا، قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا۔
ملک کی کئی ریاستوں میں ہوئی نمائش، لیکن حکومت سے نہیں ملا اعزاز
کہا جاتا ہے کہ اس طرح کے آرٹ کی قدر بیرون ممالک میں خوب ہے لیکن اپنے ملک میں اس کے قدر دان تو ہیں لیکن وہ ہائی پروفائلز کے ہی زیادہ تر ہوتے ہیں اور ان کی نظر شاید کہ ہزاروں میں ایک پر پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاوید یوسف کے ذریعے تلاش کیے ہوئے ڈرفٹ ووڈ آرٹ کی نمائش جمشید پور، دلی، کلکتہ، پٹنہ اور دیگر کئی بڑے شہروں میں ایگزیبیشن میں ہوئی۔
جس میں ٹاٹا کے سابق چیئرمین سے لیکر کئی گورنر اور بڑے حکام اور ہستیوں نے ان کے اس آرٹ کی ایگزیبیشن کے دوران تعریف کی لیکن انہیں وہ اعزاز یا مدد یا مقبولیت نہیں ملی جس کا حقدار ایک فنکار ہوتا ہے۔
جاوید یوسف کو اس کا ملال بھی ہے۔ جاوید یوسف بتاتے ہیں کہ وہ بہار، جھارکھنڈ، منی پور، بنگال، اڑیسہ اور دوسرے جنگلوں سے اب تک پانچ سو کے قریب ایسی لکڑیوں کی تلاش کرچکے ہیں ان میں زیادہ تر انسانی شکل اور جانوروں کی شکل کی لکڑیاں ہیں ان کے پاس تین انچ سے لیکر پندرہ انچ تک کے ایسے ڈرفٹ ووڈ ہیں اور ان سبھی کو شہر کے چھتہ مسجد محلے میں واقع اپنے گھر کے ایک بڑے ہال اور برآمدہ میں میوزیم کی شکل میں سجاکر رکھے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں:دہلی: فیروزشاہ کوٹلہ مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے ٹکٹ لینا لازمی
اس کی پہچان ملک وبیرون ملک تک پھیلانے کے لیے مرکزی وریاستی حکومت کے محکمۂ کلچرل آرٹ سے لیکر ضلع انتظامیہ اور اس تعلق سے کام کرنے والے متعدد اداروں کو درجنوں خطوط بھیج چکے ہیں لیکن کسی نے اب تک بات کرنا یا دیکھنا تو دور ان کے خط کا جواب تک نہیں دیا۔ جاوید حکومت سے صرف اتنا مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے اس ہنر کو لوگوں تک پہنچایا جائے۔