موسم بہار میں منایا جانے والا یہ تہوار روحانی اعتبار سے اندھیرے پر روشنی کی، نادانی پر عقل کی، بُرائی پر اچھائی کی اور مایوسی پر اُمید کی فتح و کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
اس تہوار کی تیاریاں 9 دن پہلے سے شروع ہوجاتی ہیں اور دیگر رسومات مزید 5 دن تک جاری رہتی ہے، اصل تہوار اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے، اصل تہوار شمسی، قمری تقویم کے مہینہ کارتیک میں اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے۔
گریگورین تقویم کے مطابق یہ تہوار وسط اکتوبر اور وسط نومبر میں پڑتا ہے، دیوالی کی رات سے پہلے عقیدت مند اپنے گھروں کی مرمت، تزئین و آرائش اور رنگ و روغن کرتے ہیں اور دیوالی کی رات کو نئے کپڑے پہنتے ہیں، دیے جلاتے ہیں، کہیں روشن دان، شمع اور کہیں مختلف شکلوں کے چراغ جلائے جاتے ہیں، یہ دیے گھروں کے اندر اور باہر، گلیوں میں بھی رکھے ہوتے ہیں۔
دولت و خوشحالی کی دیوی لکشمی کی پوجا کی جاتی ہے اور پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں، بعد ازاں سارے خاندان والے اجتماعی دعوتوں کا اہتمام کرتے ہیں اور خوب مٹھائیاں تقسیم کی جاتی ہیں، دوست و احباب کو مدعو کیا جاتا ہے اور تحفے تحائف تقسیم کیے جاتے ہیں۔
برصغیر کے کئی علاقوں میں یہ تیوہار دھنتیرس سے شروع ہوتا ہے جس کا پانچواں دن بھیا دوج بھائی بہن کے رشتوں لیے مخصوص ہے، اس پر یہ تیوہار ختم ہوجاتا ہے۔
عام طور پر دھنتیرس، دسہرا کے اٹھارہ دن بعد پڑتا ہے، دیوالی کی رات ہیجین پیروکار مہاویر کے موکش (نجات) پانے کی خوشی میں دیوالی مناتے ہیں، سکھ پیروکار اس تہوار کو بندی چھوڑ دیوس کے نام سے مناتے ہیں۔ برصغیر میں عید، ہولی اور دیوالی قومی تہوار کے طور سب لوگ بلا تفریق مذہب و ملت مناتے آرہے ہیں۔