ETV Bharat / bharat

وکلاء کے دفتر پر تلاشی اور چھاپوں کے لیے ریگولیشن اور ہدایات طے کرنے کا مطالبہ مسترد

author img

By

Published : Oct 8, 2021, 10:20 AM IST

گزشتہ 28 جولائی کو عدالت نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔ یہ درخواست ایڈوکیٹ نکھل بوروانکر نے دائر کی تھی۔ درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے کہا تھا کہ کسی وکیل پر چھاپے مارنے یا تلاشی لینے کے لیے ضابطہ فوجداری کی دفعات کی تعمیل کے لیے ہدایات جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایک وکیل کے دفتر میں چھاپے کے دوران ان کا موبائل فون بھی لیا گیا، جس میں موکلوں کی بہت سی خفیہ معلومات موجود ہیں۔

delhi high court
دہلی ہائی کورٹ

دہلی ہائی کورٹ نے جمعرات کے روز وکلاء کے دفاتر پر تلاشی اور چھاپوں کے لیے ریگولیشن اور گائیڈلائن کی درخواست خارج کردی۔ عدالت نے کہا کہ اگر کسی کو لگتا ہے کہ اس کے حقوق پامال ہوئے ہیں تو وہ عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ تلاشی اور چھاپے کا عمل حقائق پر مبنی ہے۔ ہر چھاپے کی کارروائی کی ویڈیو گرافی ممکن نہیں ہے۔ بعض اوقات چھاپے فوری طور پر لگانے پڑتے ہیں اور وہ بھی ناموافق اوقات میں۔

گزشتہ 28 جولائی کو عدالت نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔ یہ درخواست ایڈوکیٹ نکھل بوروانکر نے دائر کی تھی۔ درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے کہا تھا کہ کسی وکیل پر چھاپے مارنے یا تلاشی لینے کے لیے ضابطہ فوجداری کی دفعات کی تعمیل کے لیے ہدایات جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایک وکیل کے دفتر میں چھاپے کے دوران ان کا موبائل فون بھی لیا گیا، جس میں موکلوں کی بہت سی خفیہ معلومات موجود ہیں۔


پرشانت بھوشن نے کہا تھا کہ ضابطہ فوجداری میں سرچ آپریشن سے پہلے سمن جاری کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے جاری 28 دسمبر 2020 کے بیان کا حوالہ دیا، جس میں وکیل کے دفتر میں سرچ آپریشن کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس سرچ آپریشن کو غیر قانونی اور من مانی قرار دیا تھا۔ سماعت کے دوران مرکزی حکومت کی جانب سے اے ایس جی چیتن شرما نے درخواست کی مخالفت کی اور کہا کہ درخواست میں کس وکیل سے بحث کی گئی ہے؟ یہ بیان نہیں کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ کس کو درخواست میں فریق بنایا گیا ہے یہ بھی واضح نہیں ہے۔ اس درخواست میں آئی بی اور این آئی اے کو بھی ضروری فریق بنایا جائے۔

مزید پڑھیں:۔ سپریم کورٹ جیسی ضلعی عدالتوں کی سکیورٹی، دہلی ہائی کورٹ نے وکلاء سے تجاویز طلب کیں


چیتن شرما نے کہا تھا کہ سرچ آپریشن مختلف حالات میں مختلف طریقوں سے کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ پٹیشن قبول کر لی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے ایک نیا قانون بنانا، جو نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کے بعد عدالت نے باضابطہ طور پر نوٹس جاری کرنے سے انکار کر دیا اور مرکزی حکومت کو جواب داخل کرنے کی ہدایت دی۔

دہلی ہائی کورٹ نے جمعرات کے روز وکلاء کے دفاتر پر تلاشی اور چھاپوں کے لیے ریگولیشن اور گائیڈلائن کی درخواست خارج کردی۔ عدالت نے کہا کہ اگر کسی کو لگتا ہے کہ اس کے حقوق پامال ہوئے ہیں تو وہ عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ تلاشی اور چھاپے کا عمل حقائق پر مبنی ہے۔ ہر چھاپے کی کارروائی کی ویڈیو گرافی ممکن نہیں ہے۔ بعض اوقات چھاپے فوری طور پر لگانے پڑتے ہیں اور وہ بھی ناموافق اوقات میں۔

گزشتہ 28 جولائی کو عدالت نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا۔ یہ درخواست ایڈوکیٹ نکھل بوروانکر نے دائر کی تھی۔ درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے کہا تھا کہ کسی وکیل پر چھاپے مارنے یا تلاشی لینے کے لیے ضابطہ فوجداری کی دفعات کی تعمیل کے لیے ہدایات جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایک وکیل کے دفتر میں چھاپے کے دوران ان کا موبائل فون بھی لیا گیا، جس میں موکلوں کی بہت سی خفیہ معلومات موجود ہیں۔


پرشانت بھوشن نے کہا تھا کہ ضابطہ فوجداری میں سرچ آپریشن سے پہلے سمن جاری کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے جاری 28 دسمبر 2020 کے بیان کا حوالہ دیا، جس میں وکیل کے دفتر میں سرچ آپریشن کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس سرچ آپریشن کو غیر قانونی اور من مانی قرار دیا تھا۔ سماعت کے دوران مرکزی حکومت کی جانب سے اے ایس جی چیتن شرما نے درخواست کی مخالفت کی اور کہا کہ درخواست میں کس وکیل سے بحث کی گئی ہے؟ یہ بیان نہیں کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ کس کو درخواست میں فریق بنایا گیا ہے یہ بھی واضح نہیں ہے۔ اس درخواست میں آئی بی اور این آئی اے کو بھی ضروری فریق بنایا جائے۔

مزید پڑھیں:۔ سپریم کورٹ جیسی ضلعی عدالتوں کی سکیورٹی، دہلی ہائی کورٹ نے وکلاء سے تجاویز طلب کیں


چیتن شرما نے کہا تھا کہ سرچ آپریشن مختلف حالات میں مختلف طریقوں سے کیے جاتے ہیں۔ اگر یہ پٹیشن قبول کر لی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے ایک نیا قانون بنانا، جو نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کے بعد عدالت نے باضابطہ طور پر نوٹس جاری کرنے سے انکار کر دیا اور مرکزی حکومت کو جواب داخل کرنے کی ہدایت دی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.