نئی دہلی: را کے سابق سربراہ اے ایس دلت نے ایک نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے وادی کشمیر کے تعلق سے کہاکہ' یکے بعد دیگرے حکومتوں نے باریکیوں کو سمجھنے اور وہاں کی زمینی حقیقت میں تبدیلی کے ساتھ بہتری لانے کی پرواہ کیے بغیر کشمیر کو بلیک اینڈ وائٹ نظر سے دیکھنے کی غلطی کی ہے۔ را کے سابق سربراہ کا خیال ہے کہ دہلی کے سیاست دانوں کے لیے اچھا ہوگا کہ ان کے سامنے جب وادی کی بات آئے تو وہ اسے ہلکے میں نہ لے۔
'خطے میں کسی بھی چیز کی پیش گوئی ممکن نہیں، چیزیں راتوں رات بدل جاتی ہیں۔ انہوں نے آئی اے این ایس کے ساتھ خصوصی بات چیت میں کہاکہ' زیادہ تر کشمیری یوٹوپیا یعنی (خیالی دنیا) میں نہیں رہتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ دفعہ 370 کی بحالی ممکن نہیں۔ دلت جنہوں نے سنہ 1988 سے 1990 تک انٹیلی جنس بیورو (IB) میں جوائنٹ ڈائریکٹر کے طور پر اس مشکل وقت میں کشمیر میں خدمات انجام دیں، انہوں نے کہاکہ وہاں سیاسی اور جمہوری عمل کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔'
مزید پڑھیں:
"گورنر راج نافذ ہوئے کافی عرصہ ہوچکا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ وہاں ایک منتخب حکومت بنے جسے لوگ اپنا کہہ سکیں۔ معمولات زندگی بحال ہو اس کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ انتخابات امید کی ایک کرن ہے، جہاں مقامی لیڈر کا ایک اہم کردار ہوتا ہے، یہ الگ بحث ہے کہ جب آرٹیکل کو منسوخ کیا گیا تو ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا گیا۔ انتخابات سے لوگوں کو امید اور بھروسہ بحال ہوگا۔ کم از کم انہیں عزت ملے گی'۔
دلت اپنی کتاب 'اے لائف ان دی شیڈوز: اے میموئیر میں سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ پر بھی ایک باب ہے، کہتے ہیں کہ وہ ان کے مقروض ہیں۔ سابق را چیف کہتے ہیں، وہ جو محسوس کرتے ہیں کہ کسی وزیر اعظم نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اتنی مدد نہیں کی جتنی آنجہانی راجیو گاندھی نے کی۔ وہ ہمارے کام پر کافی توجہ دیتے تھے'۔