جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر جج نے کہا کہ اقتدار کی زیادتی سے لوگوں کو بچانا عدالت کی ذمہ داری ہے۔ شمال مشرقی دہلی فساد میں جھوٹے الزامات میں گرفتار تبسم جس کے دو دو چھوٹے بچے ہیں کو بالآخر دس ماہ بعد ضمانت مل گئی۔ جج سبرامنیم پرساد نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ کورٹ کا یہ آئینی فریضہ ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ سرکار کی زیادتی کی وجہ سے کسی فرد کی آزادی متاثر نہ ہو۔
انھوں نے کہا کہ ضمانت اصل ہے اور قید کرنا استثنائی امر ہے، عدالتوں کو اپنے دائرہ اثر کو استعمال کرتے ہوئے شخصی آزادی کو بحال کرنا چاہیے، سپریم کورٹ نے بارہا اس پر زور دیا ہے کہ عدالتوں کو دو پہلوؤں پر بیداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اول یہ کہ وہ فوجداری قانون کے مناسب نفاذ کو یقینی بنائیں اور ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنائیں کہ قانون کسی کو ہراساں کرنے کا ٹول نہ بن جائے۔
جج نے تبسم کے مقدمہ کے سلسلے میں مذکورہ تاثر پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملزمہ دس ماہ سے جیل میں بند ہے، اس کے سلسلے میں ثبوتوں کے مطالعے سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ وہ احتجاجی مقام کے آس پاس کے کسی بھی ویڈیو فوٹیج میں نظر نہیں آرہی ہے اور پروسیکیوشن کا یہ دعویٰ کہ برقعہ پہننے والی چند خواتین کو پولیس اہلکاروں پر حملہ کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے جیساکہ وشال چودھری کے ویڈیو فوٹیج میں سامنے آیا ہے، بے وزن بات ہے کیونکہ ملزمہ کی شناخت ویڈیو میں نہیں ہوسکی۔
اس لیے عدالت کی رائے ہے کہ ملزمہ کی مسلسل قید کا کوئی جواز نہیں ہے، جج نے یہ بھی کہا کہ کورٹ کی رائے یہ ہے کہ محض احتجاج کے منتظمین میں سے ایک ہونے یا احتجاج میں شریک دیگر افراد کے ساتھ رابطے میں ہونا اس امر کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے کہ کوئی شخص فساد کی پیشگی سازش میں شریک تھا۔
واضح رہے کہ احتجاج اور اظہار رائے کا حق جمہوری ڈھانچہ میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، اور اس لیے احتجاج کرنے کے عمل کو کسی کو جیل میں بند کرنے کا ہتھیار نہیں بنایا جا سکتا، نیز اس معاملے میں چوتھی چارج شیٹ پہلے ہی دائر کی جاچکی ہے، مقدمے کی سماعت میں کافی وقت لگے گا۔ اس لیے ملزمہ جس کے دو چھوٹے بچے ہیں، کو غیر معینہ مدت کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنا دانشمندی نہیں ہوگی۔
درخواست گزار اپنے معاشرہ میں بااثر خاتون ہیں، اس وجہ سے، اس کے مفرور اور فرار ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مزید برآں، درخواست گزار کے دو شریک ملزمان کو پہلے ہی ضمانت مل چکی ہے، اس لیے ان کو بھی ضمانت دی جاتی ہے۔
فیصلے سے قبل جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے مقرر کردہ وکیل ایڈوکیٹ محمد عبدالغفار، ایڈوکیٹ نوراللہ اور دکشا دیویدی نے کہا کہ تبسم ایک ذمہ دار شہری ہیں، انھوں نے کسی بھی تشدد میں حصہ نہیں لیا، وہ چاند باغ کی رہنے والی ہیں اور وزیر آباد میں جہاں رتن لال پر حملہ ہوا، وہ وہاں سے صرف تین سو میٹر کی دوری پر رہتی ہیں، دہلی پولس نے اس پر جو بھی الزامات لگائے ہیں وہ سب بے بنیاد ہیں اور پولس کی طرف سے پیش کردہ کوئی بھی ثبوت اسے ذرہ برابر بھی ثابت نہیں کرتے۔
فساد کے چھ ماہ بعد دہلی پولس نے اس کے گھر کے باہر نوٹس لگادیا کہ وہ پولس میں حاضر ہوں، حالانکہ وہ کووڈ کی وجہ سے اپنے آبائی وطن میں تھی، بعد میں پولس نے گرفتار کیا اور نومبر 2020 میں پیش کردہ اضافی چارج شیٹ میں ان کا نام بڑھا دیا۔
عدالت کے فیصلے اور آراء پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا محمود مدنی نے کہا کہ عدالت نے جو کچھ بھی کہا ہے کہ وہ سچ کا آئینہ دار ہے، عدالتوں نے جس طرح سے ر د عمل کاا ظہار کیا ہے کہ اس سے دہلی فساد میں پولس اور تحقیقاتی ایجنیسیوں کا کردار بے نقاب ہوا ہے۔
جمعیۃ علماء ہند نے تو شروع میں ہی دہلی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی کہ دہلی فساد کی منصفانہ انکوائری کرائی جائے اور ثبوتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
انھوں نے کہا کہ افسوس اس بات پر ہے کہ فساد کے ڈیرھ سال گزر جانے کے باوجود بھی اصل مجرم کا پتہ نہیں چلا اور خانہ پری کے لیے قصور افراد کو پکڑ پکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا، انھوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ فساد کے آٹھ ماہ بعد تبسم کے گھر کے باہر نوٹس دالا گیا، جس سے ایک شہری کی سماجی زندگی متاثرہوئی اور اسے محض تخیل کی بنیاد پر دس ماہ تک جیل میں رہنا پڑا۔
مزید پڑھیں:
شرجیل امام کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ملتوی
جمعیۃ علماء ہند ایسے پریشان لوگوں کے مقدمات لڑرہی ہے، اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے وکلاء کے پینل کی کوشش سے تین سو مقدمات میں ضمانت ملی ہے، جمعیۃ ایڈوکیٹ نیاز احمد فاروقی کی نگرانی میں ساڑھے تین سو سے زائد مقدمات کی پیروی کررہی ہے۔