ETV Bharat / bharat

ریاستوں میں کانگریس کی شکست، پارٹی کو کیا کرنے کی ضرورت؟

author img

By

Published : May 4, 2021, 9:21 AM IST

لوک سبھا ہو یا اسمبلی ہر طرح کے انتخابات میں ملک کی قدیم کانگریس پارٹی کو مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلہ میں علاقائی پارٹیاں مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں کانگریس تقریباً غائب ہوتی نظر آ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ پارٹی میں کیا غلط ہے؟

ریاستوں میں کانگریس کی شکست قائدین کے لیے تشویش کا سبب
ریاستوں میں کانگریس کی شکست قائدین کے لیے تشویش کا سبب

کانگریس نے حال ہی میں اختتام پذیر ہوئے 5 ریاستی اسمبلی انتخابات میں مکمل طور پر نئی حکمت عملی کا انتخاب کیا تھا۔ خاص طور پر آسام اور کیرالہ دونوں ریاستوں میں اس کے لیے یہ سب سے بڑا چیلنج تھا، راہل اور پرینکا گاندھی دونوں نے ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ کیا لیکن وہ زمینی سطح پر اثر ڈالنے میں ناکام رہے۔

  • کانگریس دور دور تک موجود نہیں

اگر ہم دیگر تین ریاستوں کے نتائج پر نظر ڈالیں تو بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے باوجود کانگریس مغربی بنگال میں اپنا کھاتہ نہیں کھول سکی ہے۔ کانگریس پڈوچیری میں بھی انتخابی جنگ ہار گئی۔ امید کی واحد کرن تمل ناڈو سے آئی لیکن وہ بھی ڈی ایم کے کی وجہ سے ممکن ہوا جہاں اس نے ریاست میں زبردست فتح حاصل کی ہے۔

  • اپوزیشن جماعتوں کا مضبوط قائد

پارٹی واضح طور پر ریاستوں میں اپنا وجود کھو رہی ہے۔ سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ وہ اپوزیشن کی قیادت کرنے کے لئے اپنی اصل طاقت سے بھی محروم ہے۔ اس وقت علاقائی پارٹیاں مضبوط تر ہوتی جارہی ہیں۔ نتائج کے بعد ممتا بنرجی کو اپوزیشن جماعتوں کے مضبوط قائد چہرہ کے طور پر دیکھا جارہا ہے جو بی جے پی کو سخت ٹکر دے سکتی ہے۔

ان نتائج پر کانگریس پارٹی کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر اس طرح نہ کیا گیا تو یہ ان کی داخلی خلیج کو اور بھی گہرا کرسکتی ہے۔ 23 قائدین جو پہلے ہی پارٹی کے کام کاج سے مطمئن نہیں تھے اور تنظیمی تبدیلی کا مطالبہ کرتے تھے۔ ایک بار پھر قیادت پر سوال کرسکتے ہیں۔ دریں اثنا اس گروپ کے علاوہ باہر بھی کچھ ایسے رہنما موجود ہیں جو پارٹی کے کام سے خوش نہیں ہیں۔

  • کانگریس کو اپنے زوال کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا

سابق وزیر قانون ڈاکٹر اشونی کمار نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واضح طور پر کانگریس کو اپنے زوال کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ ہی ہر سطح پر نظریاتی وابستگیوں اور باہمی تعاون سے متعلق روایات میں اپنے آپ کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

کانگریس کی ترجمان راگنی نائک نے ان سینئر قائدین پر بھی تنقید کی جنہوں نے ٹی ایم سی اور ممتا بنرجی کی مغربی بنگال میں فتح کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ راگنی نائک نے کہا کہ اگر ہم (کانگریس) مودی کے نقصان میں اپنی خوشی تلاش کرتے رہیں تو ہم اپنی شکست کے سلسلہ کو کب ختم کریں گے؟

مہاراشٹر کانگریس کے رہنما سنجے نروپم نے بھی کہا کہ ان 5 ریاستوں کے انتخابی نتائج کانگریس کے لئے بہت مایوس کن ہیں۔ ہمارے پاس پچھلے 2 سالوں سے کوئی کل وقتی صدر نہیں ہے۔ ان نتائج کو فراموش کرتے ہوئے ہمیں اب سدھار کی طرف بڑھنا چاہئے۔

  • صرف انفرادی کارکردگی ہی اہمیت کی حامل

کانگریس کے سابق ترجمان سنجے جھا جنہیں پارٹی سے برخواست کردیا گیا ہے، نے ٹویٹ کیا کہ اگر کانگریس کارپوریٹ ہوتا تو سی ای او اور پورا بورڈ رضاکارانہ طور پر اپنے استعفے پیش کرتا۔ اور اسے خوشی خوشی قبول کرلیا جاتا اور ایک نیا سی ای او اور ٹیم مقرر کی جائے۔ یہ زندگی ہے، یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، صرف انفرادی کارکردگی ہی اہمیت رکھتی ہے اور اوپر نیچے تبدیلی ہونا کرنا پارٹی کے لیے اچھا ہے۔

ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ مجھے کانگریس سے ہمدردی ہے اور عاجزانہ درخواست ہے کہ بنگال میں بی جے پی کے اقتدار حاصل کرنے میں ناکامی پر خوش ہوکر اپنا وقت ضائع کرنا بند کریں۔ بی جے پی نے آسام کو جیت لیا، پڈوچیری میں بی جے پی اتحاد کا حصہ ہے، بنگال میں بی جے پی مرکزی حزب اختلاف پارٹی ہے۔ لیکن ان سب ریاستوں میں آپ کہاں ہو یہ دیکھنا دلچسپ ہے۔

جس چیز پر آپ قابو پاسکتے ہیں اسے ٹھیک کریں۔ حالانکہ کانگریس کے چیف ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے نتائج کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگوں کے مینڈیٹ کو قبول کرتے ہیں۔ کانگریس پارٹی ان نتائج کا تجزیہ کرکے پارٹی کے لیے کچھ سبق لیتے ہوئے نقائص کو دور کرنے کی کوشش کرے گی۔

کانگریس نے حال ہی میں اختتام پذیر ہوئے 5 ریاستی اسمبلی انتخابات میں مکمل طور پر نئی حکمت عملی کا انتخاب کیا تھا۔ خاص طور پر آسام اور کیرالہ دونوں ریاستوں میں اس کے لیے یہ سب سے بڑا چیلنج تھا، راہل اور پرینکا گاندھی دونوں نے ذاتی دلچسپی کا مظاہرہ کیا لیکن وہ زمینی سطح پر اثر ڈالنے میں ناکام رہے۔

  • کانگریس دور دور تک موجود نہیں

اگر ہم دیگر تین ریاستوں کے نتائج پر نظر ڈالیں تو بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے باوجود کانگریس مغربی بنگال میں اپنا کھاتہ نہیں کھول سکی ہے۔ کانگریس پڈوچیری میں بھی انتخابی جنگ ہار گئی۔ امید کی واحد کرن تمل ناڈو سے آئی لیکن وہ بھی ڈی ایم کے کی وجہ سے ممکن ہوا جہاں اس نے ریاست میں زبردست فتح حاصل کی ہے۔

  • اپوزیشن جماعتوں کا مضبوط قائد

پارٹی واضح طور پر ریاستوں میں اپنا وجود کھو رہی ہے۔ سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ وہ اپوزیشن کی قیادت کرنے کے لئے اپنی اصل طاقت سے بھی محروم ہے۔ اس وقت علاقائی پارٹیاں مضبوط تر ہوتی جارہی ہیں۔ نتائج کے بعد ممتا بنرجی کو اپوزیشن جماعتوں کے مضبوط قائد چہرہ کے طور پر دیکھا جارہا ہے جو بی جے پی کو سخت ٹکر دے سکتی ہے۔

ان نتائج پر کانگریس پارٹی کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر اس طرح نہ کیا گیا تو یہ ان کی داخلی خلیج کو اور بھی گہرا کرسکتی ہے۔ 23 قائدین جو پہلے ہی پارٹی کے کام کاج سے مطمئن نہیں تھے اور تنظیمی تبدیلی کا مطالبہ کرتے تھے۔ ایک بار پھر قیادت پر سوال کرسکتے ہیں۔ دریں اثنا اس گروپ کے علاوہ باہر بھی کچھ ایسے رہنما موجود ہیں جو پارٹی کے کام سے خوش نہیں ہیں۔

  • کانگریس کو اپنے زوال کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا

سابق وزیر قانون ڈاکٹر اشونی کمار نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ واضح طور پر کانگریس کو اپنے زوال کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ ہی ہر سطح پر نظریاتی وابستگیوں اور باہمی تعاون سے متعلق روایات میں اپنے آپ کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے خصوصی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

کانگریس کی ترجمان راگنی نائک نے ان سینئر قائدین پر بھی تنقید کی جنہوں نے ٹی ایم سی اور ممتا بنرجی کی مغربی بنگال میں فتح کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ راگنی نائک نے کہا کہ اگر ہم (کانگریس) مودی کے نقصان میں اپنی خوشی تلاش کرتے رہیں تو ہم اپنی شکست کے سلسلہ کو کب ختم کریں گے؟

مہاراشٹر کانگریس کے رہنما سنجے نروپم نے بھی کہا کہ ان 5 ریاستوں کے انتخابی نتائج کانگریس کے لئے بہت مایوس کن ہیں۔ ہمارے پاس پچھلے 2 سالوں سے کوئی کل وقتی صدر نہیں ہے۔ ان نتائج کو فراموش کرتے ہوئے ہمیں اب سدھار کی طرف بڑھنا چاہئے۔

  • صرف انفرادی کارکردگی ہی اہمیت کی حامل

کانگریس کے سابق ترجمان سنجے جھا جنہیں پارٹی سے برخواست کردیا گیا ہے، نے ٹویٹ کیا کہ اگر کانگریس کارپوریٹ ہوتا تو سی ای او اور پورا بورڈ رضاکارانہ طور پر اپنے استعفے پیش کرتا۔ اور اسے خوشی خوشی قبول کرلیا جاتا اور ایک نیا سی ای او اور ٹیم مقرر کی جائے۔ یہ زندگی ہے، یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، صرف انفرادی کارکردگی ہی اہمیت رکھتی ہے اور اوپر نیچے تبدیلی ہونا کرنا پارٹی کے لیے اچھا ہے۔

ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ مجھے کانگریس سے ہمدردی ہے اور عاجزانہ درخواست ہے کہ بنگال میں بی جے پی کے اقتدار حاصل کرنے میں ناکامی پر خوش ہوکر اپنا وقت ضائع کرنا بند کریں۔ بی جے پی نے آسام کو جیت لیا، پڈوچیری میں بی جے پی اتحاد کا حصہ ہے، بنگال میں بی جے پی مرکزی حزب اختلاف پارٹی ہے۔ لیکن ان سب ریاستوں میں آپ کہاں ہو یہ دیکھنا دلچسپ ہے۔

جس چیز پر آپ قابو پاسکتے ہیں اسے ٹھیک کریں۔ حالانکہ کانگریس کے چیف ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے نتائج کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم لوگوں کے مینڈیٹ کو قبول کرتے ہیں۔ کانگریس پارٹی ان نتائج کا تجزیہ کرکے پارٹی کے لیے کچھ سبق لیتے ہوئے نقائص کو دور کرنے کی کوشش کرے گی۔

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.