کووِڈ 19 کی وبا، جو اس صدی کا سبب سے بڑا چیلنج اُبھر کر سامنے آئی ہے، کے انسداد کے لئے تیار کی گئی ویکسین سے استفادہ حاصل کرنے کے معاملے میں ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟
اگرچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکیسن سے استفادہ حاصل کرنے کے معاملے میں بھارت، امریکا اور برطانیہ کے بعد تیسرے نمبر پر ہے، لیکن بغور جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ ہم دراصل اس ضمن میں سست روی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
امریکا میں اب تک ساڑھے پانچ کروڑ اور برطانیہ میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ لوگوں کو ویکسین کے ٹیکے لگوائے گئے ہیں۔ لیکن بھارت میں اب تک ویکیسن کی صرف نوے لاکھ خوراکیں ہی لوگوں کو فراہم کی گئی ہیں، جبکہ اس مہم کو شروع ہوئے، ایک ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔
امریکا ویکسین کی بارہ اقسام کی چار سو اسی کروڑ خوراکیں پیدا کرنے والا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق بھارت میں تین سو ساٹھ ویکسین خوراکیں تیار کی جائیں گی۔ یعنی بھارت میں ویکسین کی ضرورت اور اس کی پیداوار میں ایک بہت بڑی خلیج ہے۔ یہ صورتحال اعلیٰ سطحی فیصلہ سازی اور فوری اقدامات کی متقاضی ہے۔
مرکزی سرکار نے مرحلہ وار بنیادوں پر ویکیسن کے ٹیکے لگوانے کا منصوبہ بنایا تھا، جس کے مطابق پہلے مرحلے پر صف اول کے کارکنوں کو ترجیحی بنیادوں پر یہ ٹیکے لگوائے گئے۔ پچاس سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ویکسین لگوانے کا موقعہ دوسرے مرحلے پر آئے گا، جو اگلے ماہ شروع ہوگا۔
اگر ویکیسن کے ٹیکے لگانے کی رفتار یہی رہی، تو اسے ملک کی تمام دیہی آبادی تک پہنچنے میں کم از کم پانچ سال کا وقت لگے گا۔ کووِڈ ویکسین کے استعمال کی معیاد ختم ہوجائے گی اگر اسے تیار کرنے کے بعد چھ ماہ کے اندر اندر استعمال نہ کیا گیا۔
دوسری جانب جن لوگوں کو ترجیحی بنیادوں پر پہلے مرحلے پر ویکیسن دی جارہی ہے، اُن میں سے کئی ٹیکے لگوانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں جبکہ عام لوگوں کے ذہنوں میں بھی ویکسین لگوانے کے حوالے سے شکوک و شبہات ہیں۔
یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ضمن میں عوامی جانکاری مہم چلائے اور لوگوں کو آگاہ کرے کہ وہ لوگ بھی اسے لگواسکتے ہیں، جو طویل عرصے سے بیمار ہوں۔ لوگوں کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ویکسین لگوانا اُن کی ایک سماجی ذمہ داری ہے۔
کووِڈ کا شکار ہوئے وہ لوگ، جن کی قوت مدافعت کمزور ہو، دوبارہ اس وبا سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ سینٹر فار سیلولر اینڈ مالیو کیولر بائیولوجی کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کووِڈ سے متاثرہ بعض لوگ ٹھیک ہوجانے کے بعد دوبارہ اس سے متاثر ہورہے ہیں۔
جرمنی، فرانس، نیتھر لینڈ اور پُرتگال جیسے ممالک ابھی تک لاک ڈاؤن میں ہیں۔ بھارت کے مختلف حصوں جن میں مہاراشٹر، کیرالہ اور کرناٹک شامل ہیں، میں وبا سے متعلق تشویشناک صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ممبئی جیسی جگہوں پر دوبارہ لاک ڈاؤن لگانے کی تجویزیں سامنے آرہی ہیں۔
ویکسین آجانے کے بعد عام لوگوں میں ایک خطرناک خود اعتمادی پیدا ہوگئی ہے اور وہ ماسک پہننے اور جسمانی دوریاں بنائے رکھنے جیسے احتیاطی تدابیر کرنے سے کوتاہی برتنے لگے ہیں۔ حالانکہ عالمی ادارۂ صحت بار بار یہ بات دہرا رہا ہے کہ کوئی بھی شخص تب تک خود کو محفوظ نہ سمجھے جب تک وہ ویکسین نہ لگوائے۔
مرکزی اور ریاستی سرکاروں کو ویکسین کے حوالے سے لوگوں کے دلوں سے شکوک و شبہات ختم کرنے کے لئے ایک جانکاری مہم شروع کردینی چاہیے۔ حکومتوں کو لوگوں کو یہ بھی بتادینا چاہیے کہ وہ مزید کچھ وقت تک احتیاطی تدابیر جاری رکھیں۔
وزیر اعظم مودی نے کہا ہے کہ ہمارے لئے دونوں ادارے سریم اور بھارت بائیو ٹیک قابل فخر ہیں کہ اُنہوں نے ملکی سطح پر ویکسین تیار کرلی۔ اُن کا فخر حق بجانب ہے۔ مرکزی سرکار کا کہنا ہے کہ ویکسین کی مزید کئی اقسام تیار ہورہی ہیں۔ تاہم حکومت کو چاہیے کہ وہ ویکسین کی پیداوار کےساتھ ساتھ اس کے استعمال کا توازن بنائے رکھنے کے لئے بھی اقدامات کرے۔ ترجیحی بنیادوں جنہیں ویکسین فراہم کرنی ہے، کو علاحدہ رکھنے کے بعد حکومت کو چاہیے کہ دوا ساز کمپنیوں کو یہ ویکسین بازاروں میں فروخت کرنے کی اجازت دے دی جائے۔
کمپنیز ایکٹ 2013 کے مطابق منافع کمانے والی کمپنیوں کو اپنی تین سالہ آمدن کا کم از کم دو فیصد حصہ کارپوریشن ریسپانسی بلٹی فنڈ کے تحت سماجی ذمہ داریوں پر خرچ کرنا ہوگا۔ فیڈریشن آف انڈین انڈسٹریز نے پہلے ہی مرکزی سرکار سے درخواست کی ہے کہ اسے کارپوریشن ریسپانسی بلٹی فنڈ کو استعمال کرتے اس کے ذریعے اپنے سٹاف کو ویکسین کے ٹیکے لگوانے کی اجازت دے دی جائے۔
اگر پرائیویٹ ہسپتالوں کو ویکسین مہم میں شریک بنایا جائے تو اس کے نتیجے میں یہ مہم مزید تیز ہوسکتی ہے اور اس طرح سے ہم کووِڈ 19 کو شکست دے سکتے ہیں۔