ریاست اترپردیش کے ضلع بنارس کے کاشی وشوناتھ مندر اور گیان واپی مسجد تنازع کیس میں سول عدالت نے آرکیالوجیکل سروے کے لیے پانچ افراد پر مشتمل ایک ٹیم بھی تشکیل دی جائے گی جس میں مسلم فریق کے دو فرد بھی شامل ہوں گے اور اس پورے معاملے کی ذمہ داری مرکزی حکومت کو سونپی گئی ہے۔
کورٹ کے اس فیصلے کو کاشی وشوناتھ مندر کے فریق کی حمایت میں بتایا جارہا ہے کیونکہ انجمن مساجد انتظامیہ اور سنی سنٹرل بورڈ اس سروے پر اعتراض کرتا رہا ہے۔
اس سے قبل بھی مسلم فریق کی جانب سے آرکیالوجیکل سروے والی عرضی کے خلاف عدالت میں درخواست دی گئی تھی کہ اس کی سماعت نہ کریں لیکن عدالت نے مسلم فریق کی درخواست کو خارج کردیا تھا۔عدالت میں 1991 سے جاری اس معاملے میں آرڈر جاری کیا ہے کہ کورٹ کے فیصلے کے مطابق مرکزی محکمہ آثار قدیمہ کے پانچ افراد کی ٹیم مسجد احاطے کی گہرائی و گیرائی سے سروے کرے گی۔
واضح رہے کہ یہ گیان واپی مسجد تنازعہ کا کیس آئیڈیل سمبھو لارڈ وشویشور اور انجمن مساجد انتظامیہ بنارس و یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ کے مابین برسوں سے جاری ہے۔ آئیڈیل سمبھو لارڈ وشویشور کا دعویٰ ہے کہ گیان واپی احاطے میں مسجد کی جگہ سمبھو وشویشور کا مندر تھا اور یہ بہت ہی معروف تھا ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ 1669 میں اورنگزیب نے یہ اس مقام کو ڈھانے کا حکم دیا تھا لیکن اورنگزیب کے حکم نامے میں یہ کہیں بھی نہیں لکھا تھا کہ اس احاطے میں مسجد کی تعمیر کی جائے۔
ہندو فریق یہ بھی کہتا ہے کہ مسجد کی تعمیر غیر قانونی طریقے سے ہوئی ہے، کیس اس لیے درج کیا گیا ہے تاکہ قانونی طور پر اعلان کردیا جائے کہ یہ سمبھو وشویشور جیوتیلنگ کا مندر ہے۔آئیڈیل سمبھو لارڈ وشویشور کی جانب سے عدالت عرضی داخل کی گئی تھی کی محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعے گیان واپی مسجد معاملے کی تحقیق کرائی جائے جبکہ انجمن انتظامیہ اور یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ نے اس معاملے پر سماعت نہ کرنے کی اپیل کی تھی لیکن آج مقامی عدالت نے اس معاملے پر فیصلہ دیا ہے جسے مندر فریق کے حق میں بتایا جارہا ہے۔