ریاست بہار کے شہر گیا کا اقلیتی ادارہ 'مرزا غالب کالج' Mirza Ghalib College, a minority institution in Gaya کے منتظمہ کے خلاف پوسٹر اور بینر لگے ہیں، کنبہ پروری، کالج کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کے ساتھ وقت پر انتخاب نہیں کرانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ شہر کے گیوال بیگہ سمیت کئی جگہوں پر بینرز لگائے گئے ہیں اور بینر لگانے والوں کے طور پر 'کونسل مرزا غالب کالج ' کا نام درج ہے جس سے واضح ہے کہ کالج میں سب کچھ معمول کے مطابق نہیں ہے۔
اقتدار کے لئے بند کمرے کی لڑائی اب نکل کر سڑکوں پر آچکی ہے جس سے یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ اقتدار کی لڑائی کہیں خونی لڑائی کی شکل اختیار نا کرلے کیونکہ مرزا غالب کالج کی تاریخ ہے کہ اقتدار کے لیے کالج احاطے میں گولی چلنے کا بھی معاملہ پیش آچکا ہے۔ یہ معاملہ سنہ 2010 میں پیش آیا تھا جب کالج منتظمین اور اپوزیشن گروپ کے درمیان اقتدار کو لیکر جھگڑا ہوا اور معاملہ اتنا طول پکڑ گیا کہ کالج میں کئی راؤنڈ فائرنگ ہوئی تھی اس میں کالج کے دو طالب علم زخمی بھی ہوئے تھے اب ایک بار پھر اسی طرح کی لڑائی کی شروعات ہوئی ہے۔
دراصل مرزا غالب کالج کے بائی لاز کے تحت ہر چار برسوں میں گورننگ باڈی کے رکن کے انتخاب کے لیے یہ انتخاب ہوتا ہے۔گورننگ باڈی کا رکن وہی بن سکتا ہے جو کالج کا کونسلر ہوگا۔ سنہ 2017 کے انتخاب کی فہرست کے مطابق مرزاغالب کالج کے کل 386 کونسلر ہیں۔ چار برس کمیٹی کی مدت پوری ہونے کے بعد کونسل مرزا غالب کالج کے چیئرمین کی جانب سے الیکشن کی کارروائی کے لیے تاریخ طے کر کے الیکشن کی تیاری کرنی ہوتی ہے۔
کالج کے کونسلرز ہی چیئرمین کا انتخاب کرتے ہیں اور اس کے بعد کمیٹی کے لیے سات افراد کا انتخاب بطور ممبر کرتے ہیں اور پھر سات نومنتخب ممبر کے ساتھ پرنسپل، دو ٹی آر مل کر کمیٹی کے عہدے کے لیے سکریٹری صدر کا انتخاب کرتے ہیں۔ چونکہ موجودہ کمیٹی کی مدت سنہ 2022 کے فروری میں مکمل ہوجائے گی تو ایسی صورت میں چیئرمین کونسل کی طرف سے آزادانہ و منصفانہ انتخاب کا اعلان کیا گیا ہے جس پر موجودہ کمیٹی نے اعتراض کیا اور چیئرمین کے اعلان کو غیر قانونی بتادیا جس کو لیکر چیئرمین کے ساتھ مل کر کچھ کونسلرز کمیٹی کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں اب معاملہ نے اتنا طول پکڑ گیا ہے کہ کالج کمیٹی کے خلاف سڑکوں پر پوسٹر وبینر لگائے جارہے ہیں۔
حالانکہ جب اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت اردو نے موجودہ کمیٹی کے چیئرمین شبیع عارفین شمسی اور چیئرمین ایڈووکیٹ عزیز منیری سے بات کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے کسی طرح کا بیان دینے سے انکار کر دیا۔
اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا کونسل کے چیئرمین مدت پوری ہونے کے بعد انتخاب کرانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں یا پھر وہ کالج کی پرانی روایت کے شکار ہوتے ہیں۔ دراصل کالج کی یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہاں سکریٹری یا کسی عہدے پر فائز ہونے کے بعد کوئی اسے آسانی سے چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا ہے۔
- مزید پڑھیں: اقلیتی کالج اپنے بنیادی مقصد سے دور کیوں ہیں؟
سنہ 2017 کا انتخاب بھی عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر ممکن ہوسکا تھا یہاں گیارہ افراد کی کمیٹی میں آٹھ ایسے افراد ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں یا عہدے پر پندرہ بیس برسوں سے زیادہ وقت سے ہیں۔ موجودہ وقت میں کمیٹی کے کچھ افراد چاہتے ہیں کہ انتخاب ہونے کے بجائے مخالف گروپ سے سمجھوتہ کرکے فائل میں انتخاب کردیا جائے جبکہ کچھ چاہتے ہیں کالج کے بائی لاز کے تحت انتخاب ہوں تاکہ اس میں جو امیدوار کھڑا ہونا چاہے اسے موقع مل سکے۔