ETV Bharat / bharat

Place of Worship Act پلیس آف ورشپ ایکٹ کے قانون کی آئینی حیثیت پر 12 دسمبر کو آئینی بینچ میں سماعت

جمعیت العلما کی جانب سے جاری کردہ ریلیز کے مطابق سالیسٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور انہیں حکومت کے اعلی عہدے داران سے مزید گفتگو کرنی ہے نیز حکومت کا موقف عدالت میں پیش کرنے کے لیے انہیں مزید وقت درکار ہے لہذا عدالت اس مقدمہ کی سماعت دسمبر مہینہ میں کرے گی تو اچھا ہوگا۔ jamiat ulama e hind on Place of Worship Act

author img

By

Published : Nov 14, 2022, 7:27 PM IST

پلیس آف ورشپ ایکٹ کے قانون کی آئینی حیثیت پر 12 دسمبر کو آئینی بینچ میں سماعت
پلیس آف ورشپ ایکٹ کے قانون کی آئینی حیثیت پر 12 دسمبر کو آئینی بینچ میں سماعت

نئی دہلی: پلیس آف ورشپ ایکٹ یعنی عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو ختم کرنے والی عرضداشتوں پر آج چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی دو رکنی بینچ کے روبرو سماعت میں سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے عدالت سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی سماعت پر عدالت نے انہیں حلف نامہ داخل کرنے کا حکم دیا تھا لیکن آج وہ حلف نامہ داخل کرنے پر قاصر ہیں۔ جمعیت کی جانب سے جاری کردہ ریلیز کے مطابق سالیسٹر جنرل نے عدالت کو مزید بتایا کہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور انہیں حکومت کے اعلی عہدے داران سے مزید گفتگو کرنی ہے نیز حکومت کا موقف عدالت میں پیش کرنے کے لیے انہیں مزید وقت درکار ہے لہذا عدالت اس مقدمہ کی سماعت دسمبر مہینہ میں کرے گی تو اچھا ہوگا۔ سالیسٹر جنرل کی درخواست پر چیف جسٹس نے انہیں مہلت دیتے ہوئے معاملے کی سماعت 12دسمبر تک ملتوی کردی۔

دریں اثنا ڈاکٹر سبرامنیم سوامی جنہوں نے پلیس آف ورشپ قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے، انہوں نے چیف جسٹس کو بتایا کہ پورے قانون کو ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ایسی دو عبادت گاہوں کو اس فہرست میں شام کرلیا جائے جس طرح سے بابری مسجد کو شامل کیا گیا تھا، حالانکہ سبرامنیم سوامی نے ان دو عبادت گاہوں کا نام نہیں لیا لیکن شاید وہ گیان واپی اور کاشی متھرا مقامات کا ذکر کررہے تھے۔Constitutional Bench hearing on December 12 on the constitutionality of the Place of Worship Act

جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ ورندا گروور نے چیف جسٹس کا بتایا کہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل رٹ پٹیشن کو عدالت نے سماعت کے لیے منظور کرلیا ہے لیکن ابھی تک مرکزی حکومت نے ان کی پٹیشن پر بھی جواب داخل نہیں کیا ہے لہذا مرکزی حکومت کو حکم دیا جائے کہ وہ جمعیۃ علماء کی پٹیشن پر بھی جواب داخل کرے اور تمام پٹیشن کے ساتھ جمعیۃ علماء کی پٹیشن پر بھی سماعت ہو، چیف جسٹس نے ورندا گروور کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے رجسٹری کو حکم دیا کہ معاملے کی اگلی سماعت پر یعنی کے 12 دسمبر کو جمعیۃ علماء کی پٹیشن کو بھی سماعت کے لیئے پیش کیا جائے۔ دوران سماعت ہند و فریق کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ راکیش دویدی نے کہا کہ سبکدوش چیف جسٹس جسٹس یو یو للت نے اس معاملے کی حساسیت کے مد نظر اس مقدمہ کی سماعت تین رکنی بینچ کے ذریعہ کیئے جانے کا حکم دیا تھا لہذا اس مقدمہ کی سماعت تین رکنی بینچ کرے گی تو اچھا ہے۔ راکیش دویدی کو چیف جسٹس نے کہاکہ ٹھیک ہے اس مقدمہ کی سماعت تین رکنی بینچ کرے گی۔ واضح رہے کہ صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل سول رٹ پٹیشن کا ڈائری نمبر 28081/2022 ہے جسے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے داخل کیا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل کردہ رٹ پٹیشن اور مداخلت کار کی درخواست میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی مدعی ہیں۔

مزید پڑھیں:۔ SC On Place Of Worship Act سپریم کورٹ آج پلیسیز آف ورشپ ایکٹ پر سماعت کرے گا

صدر جمعیتہ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے عبادت قانون کی سپریم کورٹ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 1991 کے قانون لانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جہاں مستقبل میں ملک کے مذہبی مقامات کا تحفظ ہو۔ وہیں بھارتی معاشرے مذہب کے نام پر لڑنے بچانا تھا تاکہ سب مذہبی مقامات محفوظ رہ سکیں، کیونکہ مذہبی مقامات کے تنازعات بہت حساس ہوتے ہیں جو کہ قانون بالا دستی کو نہ صرف چیلنج کرتے ہیں بلکہ سماج کے امن وسکون کو بھی درھم برھم کردیتے ہیں۔ مولانا مدنی مزید کہا کہ مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق 1991ء کے اہم قانون میں ترمیم یاتبدیلی کے بجائے اس قانون کو مضبوطی سے لاگو کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ جس کے سیکشن 4/ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہے کہ ”یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ 15/ اگست 1947ء میں موجود تمام عبادت گاہوں کی مذہبی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسی کہ اس وقت تھی“۔ (یو این آئی)

نئی دہلی: پلیس آف ورشپ ایکٹ یعنی عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو ختم کرنے والی عرضداشتوں پر آج چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی دو رکنی بینچ کے روبرو سماعت میں سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے عدالت سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ پچھلی سماعت پر عدالت نے انہیں حلف نامہ داخل کرنے کا حکم دیا تھا لیکن آج وہ حلف نامہ داخل کرنے پر قاصر ہیں۔ جمعیت کی جانب سے جاری کردہ ریلیز کے مطابق سالیسٹر جنرل نے عدالت کو مزید بتایا کہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور انہیں حکومت کے اعلی عہدے داران سے مزید گفتگو کرنی ہے نیز حکومت کا موقف عدالت میں پیش کرنے کے لیے انہیں مزید وقت درکار ہے لہذا عدالت اس مقدمہ کی سماعت دسمبر مہینہ میں کرے گی تو اچھا ہوگا۔ سالیسٹر جنرل کی درخواست پر چیف جسٹس نے انہیں مہلت دیتے ہوئے معاملے کی سماعت 12دسمبر تک ملتوی کردی۔

دریں اثنا ڈاکٹر سبرامنیم سوامی جنہوں نے پلیس آف ورشپ قانون کی آئینی حیثیت کو چیلنج کیا ہے، انہوں نے چیف جسٹس کو بتایا کہ پورے قانون کو ختم کرنے کے حق میں نہیں ہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ایسی دو عبادت گاہوں کو اس فہرست میں شام کرلیا جائے جس طرح سے بابری مسجد کو شامل کیا گیا تھا، حالانکہ سبرامنیم سوامی نے ان دو عبادت گاہوں کا نام نہیں لیا لیکن شاید وہ گیان واپی اور کاشی متھرا مقامات کا ذکر کررہے تھے۔Constitutional Bench hearing on December 12 on the constitutionality of the Place of Worship Act

جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ ورندا گروور نے چیف جسٹس کا بتایا کہ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل رٹ پٹیشن کو عدالت نے سماعت کے لیے منظور کرلیا ہے لیکن ابھی تک مرکزی حکومت نے ان کی پٹیشن پر بھی جواب داخل نہیں کیا ہے لہذا مرکزی حکومت کو حکم دیا جائے کہ وہ جمعیۃ علماء کی پٹیشن پر بھی جواب داخل کرے اور تمام پٹیشن کے ساتھ جمعیۃ علماء کی پٹیشن پر بھی سماعت ہو، چیف جسٹس نے ورندا گروور کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے رجسٹری کو حکم دیا کہ معاملے کی اگلی سماعت پر یعنی کے 12 دسمبر کو جمعیۃ علماء کی پٹیشن کو بھی سماعت کے لیئے پیش کیا جائے۔ دوران سماعت ہند و فریق کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ راکیش دویدی نے کہا کہ سبکدوش چیف جسٹس جسٹس یو یو للت نے اس معاملے کی حساسیت کے مد نظر اس مقدمہ کی سماعت تین رکنی بینچ کے ذریعہ کیئے جانے کا حکم دیا تھا لہذا اس مقدمہ کی سماعت تین رکنی بینچ کرے گی تو اچھا ہے۔ راکیش دویدی کو چیف جسٹس نے کہاکہ ٹھیک ہے اس مقدمہ کی سماعت تین رکنی بینچ کرے گی۔ واضح رہے کہ صدر جمعیۃ علماء ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل سول رٹ پٹیشن کا ڈائری نمبر 28081/2022 ہے جسے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے داخل کیا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل کردہ رٹ پٹیشن اور مداخلت کار کی درخواست میں جمعیۃ علماء ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی مدعی ہیں۔

مزید پڑھیں:۔ SC On Place Of Worship Act سپریم کورٹ آج پلیسیز آف ورشپ ایکٹ پر سماعت کرے گا

صدر جمعیتہ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے عبادت قانون کی سپریم کورٹ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 1991 کے قانون لانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ جہاں مستقبل میں ملک کے مذہبی مقامات کا تحفظ ہو۔ وہیں بھارتی معاشرے مذہب کے نام پر لڑنے بچانا تھا تاکہ سب مذہبی مقامات محفوظ رہ سکیں، کیونکہ مذہبی مقامات کے تنازعات بہت حساس ہوتے ہیں جو کہ قانون بالا دستی کو نہ صرف چیلنج کرتے ہیں بلکہ سماج کے امن وسکون کو بھی درھم برھم کردیتے ہیں۔ مولانا مدنی مزید کہا کہ مذہبی عبادت گاہوں سے متعلق 1991ء کے اہم قانون میں ترمیم یاتبدیلی کے بجائے اس قانون کو مضبوطی سے لاگو کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ جس کے سیکشن 4/ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہے کہ ”یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ 15/ اگست 1947ء میں موجود تمام عبادت گاہوں کی مذہبی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسی کہ اس وقت تھی“۔ (یو این آئی)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.