چینی سائنس دانوں نے پانچ سال قبل کورونا وائرس جیسی وبائی بیماری کو بطور ہتھیار مبینہ استعمال کرنے کی تحقیقات کی تھی اور تیسری جنگ عظیم حیاتیاتی ہتھیار سے لڑنے کی پیش گوئی کی تھی۔ اس بات کا دعویٰ امریکی محکمہ خارجہ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے حوالے سے میڈیا رپورٹس میں کیا گیا ہے۔
برطانیہ کے دی سن اخبار نے آسٹریلیائی ریاست کی پہلی رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے حوالے کردہ 'دھماکہ خیز' دستاویزات میں مبینہ طور پر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ چین کی پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے کمانڈر اس مہلک وبا کی پیش گوئی کررہے تھے۔
امریکی عہدیداروں کو ملنے والی دستاویزات کو مبینہ طور پر سنہ 2015 میں فوجی سائنس دانوں اور چین کے محکمہ صحت کے اعلیٰ عہدیداروں نے لکھا تھا جو کووڈ 19 کی اصلیت اور اس کے بھیانک ہونے کی تحقیقات کررہے تھے۔
چینی سائنس دانوں کی جانب سے سارس کورونا وائرس کو 'حیاتیاتی ہتھیاروں کا نیا دور' کہہ کر ذکر کیا تھا، جس کی ایک جھلک اور مثال کووڈ ہے۔ پی اے ایل کے دستاویزات نے اشارہ کیا ہے کہ بائیو ہتھیار سے حملہ کرکے دشمن کے طبی نظام کو تباہ کیا جاسکتا ہے۔
دستاویزات میں امریکی فضائیہ کے کرنل مائیکل جے کے ان اقدامات کا بھی ذکر ہے، جنھیں خدشہ تھا کہ تیسری جنگ عظیم حیاتیاتی ہتھیاروں سے لڑی جا سکتی ہے۔ دستاویزات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سال 2003 میں چین میں پھیلنے والا سارس وائرس انسان ساختہ حیاتیاتی ہتھیار ہوسکتا ہے، جسے دہشت گردوں نے جان بوجھ کر پھیلایا تھا۔
رکن پارلیمنٹ ٹام ٹگینگھٹ اور آسٹریلیائی سیاستدان جیمز پیٹرسن نے کہا کہ ان دستاویزات سے کووڈ 19 کی حقیقت کے متعلق چین کی شفافیت کے بارے میں تشویش پیدا ہوئی ہے۔ تاہم، بیجنگ میں سرکاری گلوبل ٹائمز کے اخبار نے چین کی شبیہ کو داغدار بنانے کے لئے اس مضمون کو شائع کرنے پر آسٹریلیائیوں پر تنقید کی ہے۔