نارائن پور: موہنتی سلام کلاس 9 کی طالبہ چھتیس گڑھ کے قبائلی اکثریتی ضلع نارائن پور کے ایک شیلٹر کیمپ میں گزشتہ 21 دنوں سے رہ رہی ہے جب اس کے دور دراز کے بوراونڈ گاؤں میں مبینہ طور پر مذہب کی تبدیلی کو لے کر دو برادریوں کے افراد کے درمیان تصادم ہوا۔ اس نے اپنی کتابیں اور کپڑے اس وقت کھوئے جب اس کے خاندان کو مبینہ طور پر اس تصادم کے بعد گاؤں سے بے دخل کر دیا گیا، جو ضلع میں عیسائی اور غیر مسیحی برادریوں کے درمیان کچھ عرصے سے جاری تنازع کے درمیان ہوا تھا۔ سلام کا کہنا ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے اور اسکول جانے کے قابل ہونے کے لیے اپنے گاؤں واپس جانا چاہتی ہے۔ وہ نارائن پور شہر کے انڈور اسٹیڈیم میں قائم شیلٹر کیمپ میں رہنے والے 30 سے زائد بچوں میں شامل ہے جب ان کے خاندانوں کو مبینہ طور پر عیسائیت اختیار کرنے پر ان کے گاؤں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ Violence in Chattisgarh
تصادم سے بچوں کی پڑھائی متاثر: 9ویں جماعت کی طالبہ موہنتی نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ ہم 18 دسمبر سے انڈور اسٹیڈیم میں رہ رہے ہیں۔ ہمیں ہمارے گاؤں سے نکال دیا گیا۔ ہم اپنی کتابیں اور کپڑے کھو چکے ہیں۔ میں سوچتی رہتی ہوں کہ میں اپنے اسکول واپس کیسے جاؤں گا۔ میں پڑھنا چاہتی ہوں۔ Religious Conversion Case in Chattisgarh
واضح رہے کہ بوراونڈ گاؤں کے گیارہ اسکولی بچے اپنے خاندانوں کے ساتھ شیلٹر کیمپ میں رہ رہے ہیں۔ 18 دسمبر 2022 کو نارائن پور کے علاقے بنور کے 14 گاؤں کے قبائلی عیسائی خاندانوں کی ایک بڑی تعداد نے ضلع کلکٹر کے دفتر کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ ان پر شرپسندوں نے حملہ کیا اور عیسائی مذہب کی پیروی کرنے پر انہیں گاؤں سے بے دخل کر دیا ہے۔ اس کے بعد ضلع انتظامیہ نے اس معاملے میں ضروری کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی اور انہیں عارضی پناہ گاہ میں منتقل کیا تھا اور ان کے لیے بنیادی سہولیات کا انتظام کیا تھا۔ اگرچہ انہیں پناہ مل گئی ہے لیکن ان کی ذہنی اذیت ختم نہیں ہوئی۔ شیلٹر کیمپ میں رہنے والے بچوں کے والدین پریشان ہیں کہ بچے اپنی تعلیم کیسے جاری رکھ سکیں گے۔
پناہ گاہ میں رہنے والی خاتون نرسبتی نیتم، جس کا تعلق بھٹپال گاؤں سے ہے، نے کہا کہ ہمارے بچوں کا مستقبل خطرے میں ہے۔ انہوں نے ہمارے گھروں کو خالی ہوتے دیکھا۔ وہ اسکول جانے کے قابل نہیں ہیں۔ وہ سنتے رہتے ہیں کہ لوگوں (قبائلی عیسائیوں) کو ان کے گھروں سے نکالا جا رہا ہے اور یہ انہیں خوفزدہ کرتا ہے'۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایسے مشکل وقت میں ہمت دکھانے اور اس مشکل مرحلے سے نکلنے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے پر بچوں کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ جو بچے بڑی کلاسوں میں ہیں وہ چھوٹے بچوں کو پناہ گاہ میں جو بھی مطالعاتی مواد دستیاب ہے پڑھا رہے ہیں۔
نرسبتی نیتم نے کہا کہ شیلٹر کیمپ میں نظمیں سیکھنے اور بیڈمنٹن کھیلنے جیسی سرگرمیاں بچوں کو صدمے پر قابو پانے میں مدد فراہم کر رہی ہیں، لیکن یہ کب تک چلے گا؟ انتظامیہ کو ہماری آبائی جگہوں پر واپسی کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ واضح رہے کہ شیلٹر کیمپ میں رہنے والے خاندان زیادہ تر بنور علاقے کے کدرگاؤں، بوراونڈ، بھٹپال اور بھنڈپال گاؤں سے ہیں۔
کدر گاؤں کے ایک سرکاری پرائمری اسکول کے استاد اجے کومتی نے بتایا کہ گزشتہ ماہ تصادم کے بعد سے تقریباً 10 بچے اسکول نہیں جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بچے اپنے اہل خانہ کے ساتھ نارائن پور شہر منتقل ہو گئے ہیں۔
اس تعلق سے نارائن پور کے کلکٹر اجیت وسنت پی ٹی آئی کو بتایا کہ ضلع انتظامیہ متاثرہ خاندانوں کی ان کے گاؤں واپسی کو یقینی بنانے کی کوششیں کر رہی ہے اور ساتھ ہی شیلٹر کیمپ میں بچوں کی پڑھائی کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ میں نے محکمہ تعلیم کے حکام کو مقامی اسکول کے اساتذہ کو کیمپ میں بھیجنے کی ہدایت کی ہے۔ ترجیح ان طلباء کی پڑھائی کے مسئلے کو حل کرنا ہے جو کلاس 10 اور 12 میں ہیں اور انہیں بورڈ کے امتحانات میں شرکت کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی انتظامیہ دونوں برادریوں کے افراد کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے اور کوشش ہے کہ اگلے تین چار دنوں میں ان خاندانوں کو ان کے آبائی گاؤں منتقل کر دیا جائے۔
کلکٹر اجیت وسنت نے مزید کہا کہ 'ہم نے پیر کو ضلع کے 68 گاؤں کی پنچایتوں کے مقامی عوامی نمائندوں، گاؤں کے سربراہوں، گیتا (قبائلی علاقوں میں گاؤں کے پجاری) کی ایک میٹنگ بلائی ہے تاکہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جا سکے تاکہ کوئی تازہ تصادم نہ ہو اور ہر کوئی ہم آہنگی سے رہے۔ میٹنگ کے بعد شیلٹر کیمپ میں رہنے والے دیہاتیوں کو ان کے گھروں میں منتقل کر دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ مبینہ طور پر مذہب کی تبدیلی کے معاملے کو لے کر ضلع کے بنور علاقے کے مختلف گاؤں میں گزشتہ دو ماہ سے بدامنی کی خبریں آ رہی ہیں۔
(پی ٹی آئی رپورٹ)