ممبئی: بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے ایک مسلم خاتون اور اس کے خاندان کو قبل از گرفتاری ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ کسی رشتے کو صرف اس لیے 'لو جہاد' نہیں کہا جا سکتا کہ لڑکا اور لڑکی مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ جسٹس ویبھا کنکن واڑی اور ابھے واگھواسے کی ایک ڈویژن بنچ نے 26 فروری کو دیے گئے حکم میں ان ملزمان کو پیشگی ضمانت دے دی جنہیں اورنگ آباد کی ایک مقامی عدالت نے راحت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ خاتون کے سابق عاشق نے الزام لگایا تھا کہ لڑکی نے اور اس کے خاندان نے اسے اسلام قبول کرنے اور ختنہ کرانے پر مجبور کیا۔
اس شخص کے وکیل نے خاتون اور اس کے خاندان کے افراد کی قبل از گرفتاری ضمانت کی درخواستوں کی مخالفت کرتے ہوئے یہ بھی دلیل دی کہ یہ 'لو جہاد' کا معاملہ ہے۔ ’لو جہاد‘ ایک اصطلاح ہے جسے ہندو دائیں بازو کی تنظیمیں بغیر ثبوت کے یہ دعویٰ کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں کہ ہندو خواتین کو لالچ دینے اور انہیں شادی کے ذریعے اسلام قبول کرنے کی ایک وسیع سازش ہے، اگرچہ اس کیس میں الزام لگانے والا ایک آدمی تھا۔ ہائی کورٹ نے لو جہاد کی دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص نے فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں اعتراف کیا تھا کہ وہ خاتون کے ساتھ تعلقات میں تھا اور کئی مواقع ملنے کے باوجود اس نے رشتہ ختم نہیں کیا۔ صرف اس وجہ سے کہ لڑکا اور لڑکی مختلف مذاہب سے ہیں، اس کا کوئی مذہبی زاویہ نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک دوسرے کے لیے خالص محبت کا معاملہ ہو سکتا ہے۔
عدالت نے مزید کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس معاملہ کو لو جہاد کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے لیکن جب محبت کو تسلیم کر لیا جائے تو کسی شخص کے دوسرے کے مذہب کو قبول کرنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔استغاثہ کے مقدمے کے مطابق مذکورہ جوڑا مارچ 2018 سے رشتہ میں تھا۔ مرد کا تعلق ایک درج فہرست ذات برادری سے تھا، لیکن اس نے خاتون سے یہ بات پوشیدہ رکھی۔ بعد ازاں خاتون نے اصرار کرنا شروع کر دیا کہ وہ اسلام قبول کر لے اور اس سے شادی کر لے، جس کے بعد اس شخص نے اپنے والدین کے سامنے اپنی ذات کی شناخت ظاہر کر دی۔ خاتون کے اہل خانہ نے اس کی ذات کی شناخت پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور اپنی بیٹی کو اسے قبول کرنے پر راضی کیا۔
مزید پڑھیں:۔ Maha Govt to introduce Love Jihad law in Assembly مہاراشٹرا میں ’لو جہاد‘ قانون نافذ کرنے پر غور
لیکن بعد میں تعلقات میں تلخی آ گئی جس کے بعد اس شخص نے دسمبر 2022 میں خاتون اور اس کے خاندان کے خلاف مقدمہ درج کرایا۔ہائی کورٹ نے خاتون اور اس کے اہل خانہ کو قبل از گرفتاری ضمانت دیتے ہوئے کہا کہ کیس کی تحقیقات تقریباً ختم ہو چکی ہیں اور اس لیے ان کی تحویل کی ضرورت نہیں ہوگی۔