اس پیشے سے منسلک وہ طالب علم جو اپنے آبائی کاروبار کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں، لیکن کام کے سبب وہ پڑھائی پر بھرپور توجہ نہیں دے پاتے جو ایک مقابلہ جاتی امتحان کے لیے ہونی چاہیے۔ ایک طرف اہل خانہ کی فکر دوسری طرف اپنی تعلیم کی۔
اس تذبذب میں ایک طالب علم اپنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال نہیں کر پاتا اور پس و پیش میں رہ جاتا ہے۔ تعلیم یافتہ بنکر نوجوانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ بنکاری سے ہٹ کر کوئی دوسرا روزگار فراہم ہو جائے، جس طرح سے بنکاری صنعت میں گراوٹ ہو رہی ہے، آنے والا وقت سازگار نظر نہیں آتا۔
بیشتر بنکر سرکاری یا پرائیوٹ سطح پر ملازمت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک شخص زرغام حیدر ہیں جن کی طالب علمی کے دور سے ہی یہ خواہش تھی کہ وہ اپنے قدوقامت اور ذوق کی مناسبت پولس یا فوج میں جاب حاصل کریں، لیکن زرغام کی یہ خواہش ادھوری ہی رہ گئی، بالآخر انہیں اپنے آبائی کاروبار پر ہی اکتفا کر نا پڑا۔ فوجی بن کر ملک کی خدمت نہ کرپانے کا ملال انہیں ہمیشہ رہتا ہے۔کم و بیش یہی حال مئو کے بیشتر بنکر نوجوانوں کا ہے۔
نوجوان بنکر آصف رضا نے بتایا کہ اتنی کم مزدوری میں گزارا کرنا بہت مشکل ہے، مزدوری بڑھتی نہیں لیکن کاروبار میں مندی آنے کے سبب گھٹ ضرور جاتی ہے، آج جب پورا گھر بار مل کر کام کرتا ہے تب جا کر ہماری گزر بسر ہوتی ہے۔
بنکاری صنعت میں برسوں سے مزدوری میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا ہے۔ آج بھی بنکر 85 روپے فی ساڑی کے محنتانہ پر ہی کام کرنے کو مجبور ہیں۔ ایک ساڑھی تیار ہونے میں ڈھائی سے تین گھنٹے کا وقت لگتا ہے، اس حساب سے پورے دن کی مزدوری ڈھائی سو سے تین سو روپے کے درمیان ہی سمٹ کر رہ جاتی ہے۔ یہ مزروری یومیہ مزدوری سے بھی کم ہے، اس آ مدنی میں بچوں کو فوج یا پولیس میں تیاری کے لئے خرچ مہیا کرانا سخت مشکل کام ہے۔
اب وہ اسی ادھیڑ بن میں ہیں کہ اپنے آبائی پیشے پر توجہ دیں یا کچھ الگ روزی روزگار کا انتظام کریں۔