زراعت سے متعلق 2020کے مرکزی بجٹ سے ایک واضح پیغام ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مودی حکومت پائیدار ذراعت (آرگینک یا جاوِک کھیتی)کیلئے پُرعزم ہے۔وزیرِ خزانہ نرملا سیتھا رمن نے اپنی بجٹ تقریر میں ملک میں کھیتی باڑی کے زیرِ استعمال رقبہ کو 2020-21کے دوران چار لاکھ ہیکٹر تک بڑھانے کےمنصوبے کا اعلان کیا۔
سبز انقلاب بجٹ(گرین ریولیوشن بجٹ)کے تحت 'پرم پراگت کرشی وکاس یوجنا '(سی ایس ایس)کو مزید رقبہ کو زراعتی تصرف میں لانے کیلئے 500کروڑ روپے کی رقم فراہم کی گئی ہے۔اسکے علاوہ 0.51لاکھ ہیکٹر کا رقبہ زرعی استعمال کے تحت لایا جاچکا ہے۔اس سے مقامی کھپت اور برآمد کیلئے خوراک کی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔
ایگریکلچرل اینڈ پروسیسڈ فوڈ پروڈکٹس ایکسپورٹ ڈیولوپمنٹ اتھارٹی(اے پی ای ڈی اے)نے سال2017کے مقابلے میں49فیصد اضافہ کے ساتھ سال 2018-19 میں بھارتی ذرعی برآمدات کوتقریبا 5151کروڑ روپے بتایا ہے۔
بھارتی کھیتوں میں زرعی-ماحولیاتی طریقوں کو یقینی بنانے کیلئے وزیرِ خزانہ کی جانب سے اعلان کردہ دیگر قابلِ تعریف اقدامات میں زرعی بازار کو تقویت پہنچانے کی خاطر 'جیوِک کھیتی' پر آن لائن پورٹل کی تخلیق اور 'دھنیا لکشمی' کو بااختیار بنانے کیلئے دیہی ذخیرہ اسکیم(ولیج اسٹوریج اسکیم)شامل ہے۔
یہ سبھی اقدامات پیوش گوئل کی سال 2019کی بجٹ تقریر کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں کہ جس میں انہوں نے نامیاتی خوراک کی پیداوار کو مودی سرکار کے وژن2030کی آٹھویں جہت بتایا تھا۔موجودہ بجٹ بھی بی جے پی کے انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کے مطابق ہے اور اس سے لاکھوں سنجیدہ اور ماحولیات کے تئیں حساس اور باشعور صارفین اورغیر ملکی حامیوں کو یکساں راحت ملتی ہے۔
لیکن جہاں اے پی ای ڈی اے سال 2025تک زرعی برآمدات کے 50بلین امریکی ڈالر(کی مالیت)تک پہنچنے کا اندازہ پیش کرتی ہے، وہیں زرعت اور تخم ریزی کے کئی ماہرین اس بات پر حیران ہیں کہ نامیاتی بھارت کے بیج کون بوئے گا۔
کیا ہمارے پاس ضرورت کے مطابق سند یافتہ بیجوں کی کافی مقدار ہے بھی، اس پیمانے کی برآمدات صرف زمین کے حجم اور بیجوں کی روایتی اقسام پر انحصار نہیں کرسکتی ہیں بلکہ ہمیں نامیاتی بیج اگانے کیلئے موثر نظام کی ضرورت ہے تاکہ مذکورہ شعبہ میں مطلوبہ ترقی کو حاصل کیا جاسکے۔بلکہ مطلوبہ رفتار کی پیداوار حاصل کرنے کیلئے تو بھارتی کسانوں کو نامیاتی بیج ہی نہیں بلکہ اسکی اعلیٰ مقدار چاہیئے ہوگی۔
اَن ٹریٹِڈ نہ کہ آرگانِک بیج
بھارت میں اکثر لوگ کسی بیرونی عمل سے نہ گزرنے والے بیجوں(اَن ٹریٹِڈسیڈبیج جنہیں جراثیم کُش یا کیمیات میں نہ بھگویا گیا ہو) کو ہی نامیاتی سمجھنے کے ابہام کا شکار ہیں، وہ دراصل غلط سمجھتے ہیں۔
بیج کو صرف تب ہی نامیاتی یا آرگانِک کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ زرعی ۔ماحولیاتی ترکیب سے نامیاتی مٹی میں اُگائے گئے ہوں اور انہیں نامیاتی سند دی گئی ہو۔سچ کہا جائے تو اعلیٰ کارکردگی کے مظہر نامیاتی بیج خریدنے کے آپشنز بہت محدو ہیں کیونکہ امریکہ یا جرمنی کی نامیاتی بیج صنعت کے مقابلے میں ہمارے یہاں نامیاتی بیج کی صنعت بہت پیچھے ہے۔
نامیاتی خوراک کی بڑھتی ہوئی طلب کے ساتھ ساتھ متعلقہ معیارات اور ضوابط بھی سخت تر ہوجائیں گے۔سند دہندگی کے سبھی نظاموں کا اس بات پر اتفاقِ رائے ہے کہ نامیاتی خوراک اُگانے کیلئے استعمال ہونے والے سبھی بیج بھی سند یافتہ ہونے چاہیئں۔چناچہ موجودہ زمانے میں ٹیکنالوجی نامیاتی سند دہند اداروں کو اس لائق بناتی ہے کہ وہ بیجوں کی جانچ کرکے ان میں باقیات کا پتہ لگاسکیں۔مزید برآں یہ نامیاتی تجارت کے مستقبل میں، باالخصوص یورپی یونین اور امریکہ کیلئے ایک اہم نکتہ ہوسکتا ہے۔
بیج نامیاتی بھارت
اطلاعات کے مطابق عالمی سطح پر نامیاتی بیج کا بازار سال 2024تک 5.4امریکی ڈالر تک پہنچ جائے گا، لہٰذا بھارت کو نہ صرف زیادہ سے زیادہ نامیاتی خوراک پیدا کرنے کی جانب بڑھنا ہوگا بلکہ اسے نامیاتی بیج کی پیداوار کا مرکز بھی بننا ہوگا۔حکومت اور کاشتکار دونوں کو سند دہند عالمی اداروں غیرہ کے مشورے سے نامیاتی تخم ریزی کی ایک پالیسی بنانی چاہیئے۔
اسکے بعد سِکم، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور شمال مشرقی ریاستوں میں نامیاتی تخم ریزی کے حلقے بنائے جاسکتے ہیں۔سِکم ایک زرعی ریاست ہونے کے طفیل اس حوالے سے سب سے زیادہ مناسب علاقہ ہوسکتا ہے۔مرکزی بجٹ میں نامیاتی علاقوں کیلئے ٹیکس میں خصوصی چھوٹ اور زمین کو پٹے پر دینے کی آسان شرائط ہونی چاہیئے تاکہ کسانوں اور بیج اُگانے والوں کی آمدنی میں نمایاں اضافہ ہوسکے۔
بھارت، باالخصوص حیاتیاتی تنوع سے مالا مال اسکے علاوہ یہ تخم ریزی کیلئے ایک خزانہ ہے۔ماحولیات کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر کام کرکے ملک کے کسان اپنے کھیتوں سے بیجوں کی بھاری پیداوار اُگاسکتے ہیں اور اتنا ہی نہیں بلکہ ایسا کرتے ہوئے وہ آبی وسائل اور اپنی بستیوں کو بھی بچائے رکھ سکتے ہیں۔
نیشنل بیورو آف پلانٹ جنیٹک ریسورسز (این بی پی جی آر)نے ایک بہترین پروگرام کے ذریعہ ان علاقوں میں نامیاتی علاقوں میں نامیاتی تخم ریزی کی تجارت کو فروغ دے سکتا ہے، جسکو غالبا سرکاری فنڈنگ بھی حاصل ہے۔جبکہ بائیوڈائیورسٹی انٹرنیشنل، انڈین کونسل آف ایگریکلچرل ریسرچ(آئی سی اے آر)اور ریاستی زرعی یونیورسٹیز کے جیسے دیگر ادارے اس مہم کو مزید مظبوط کرسکتے ہیں۔
اعلیٰ درجہ کی ارتقائی شراکتی افزائش یا ایولیوشنری پارٹسپیٹری بریڈنگ(ای پی بی)کیلئے نئے مڈیول بنانے کی ضرورت ہے، جو کسانوں اور بیج اُگانے والوں کو انکی علاقائی زبانوں میں دستیاب ہوں۔یہ پروگرام حکومت کی اعانت سے نافذ کیا جانا چاہیئے جبکہ کسانوں کی تنظیمیں بھی(ایف پی اوز)اہم رول ادا کرسکتی ہیں۔
المختصر یہ کہ مودی حکومت کو بھارت کو نامیاتی خوراک کا سب سے بڑا برآمد کُنندہ بنانے کی راہ میں حائل کسی بھی رکاوٹ کو دور کرنے کی تیاری کر لینی چاہیئے۔
نامیاتی بیج نہ صرف اس نظریہ کیلئے اہم ہیں بلکہ اگر پورے عزم کے ساتھ کام کیا جائے تو بیجوں کی برآمدگی کو 10فیصد اور کسانوں کی آمدن کو چار گنا بڑھانے کے حکومت کے اہداف کو بھی حاصل کیا جاسکتا ہے ۔البتہ فقط یہ سوال رہ جاتا ہے کہ جب بھارت کی نامیاتی پیداوار پر سورج چمک رہا ہے کیا بھارت گھاس اُگائے گا یا کیا بھارت اُبھرتے ہوئے نامیاتی تخم ریزی کے شعبہ کی بیخ کُنی کرے گا؟
اندرا شیکھر سنگھ(ڈائریکٹر پالیسی اینڈ آوٹ ریچ،نیشنل سیڈ ایسوسی ایشن آف انڈیا)