اس دور میں چمبل ڈاکوؤں کی گولیوں کی آواز سے گونج رہا تھا۔ اس پورے علاقے میں تشدد کے سوا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔
تبھی ایک ایسی سوچ نے پورے چمبل کے خطے کو متاثر کیا جس نے نہ صرف اس شہر میں امن بحال کیا بلکہ اس جگہ کو امن کے حقیقی معنے فراہم کیے۔
اس سوچ نے گولیوں کی گھن گرج کو خاموش کر دیا اور انتقام کے شعلوں کو ٹھنڈا کر دیا۔ آخرکار اس سوچ نے ڈاکوؤں کو متاثر کیا جس کے بعد انہوں نے ڈکیتی اور قتل و غارت گری کو ترک کردیا۔
یہ کام مہاتما گاندھی کے سوا کوئی نہیں کر سکتا تھا۔
گاندھی جی کی تعلیمات سے متاثر ہو کر بالآخر چمبل کے خطرناک ڈاکوؤں نے تشدد کی راہ چھوڑ دی۔
'ڈاکوؤں' کے لئے بدنام، جب چمبل تشدد اور ہلاکتوں کا دوسرا نام بن گیا تھا۔ اس وقت سچے گاندھیوادیوں جن میں ایس این سبہ راؤ، جئے پرکاش نارائن اور رام چندر مشرا شامل تھے، نے ایک مشن شروع کیا۔ جس کے بعد 2 دسمبر 1973 کو ایک عوامی تقریب میں ڈاکوؤں نے ہتھیار ڈال دیئے اور عام زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔
چمبل جو ایک غیر مستحکم جگہ تھی آخر کار اس میں انقلابی تبدیلی آئی۔
سنہ 1973 میں بہادر سنگھ سمیت 20 ہزار ڈاکوؤں نے امن کی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ گاندھی آشرم میں رہنے لگے اور اپنا روزگار محنت سے کرنے لگے۔
ایک طرف سے ڈاکوؤں نے اپنی بغاوت جاری رکھی تو وہی دوسری طرف ہتھیار ڈالنے والے ڈاکوؤں کی تعداد بھی بڑھ گئی۔ ایک برس کے اندر ہتھیار ڈالنے والے ڈاکوؤں کی تعداد بڑھ کر 652 ہو گئی۔
یہ گاندھی جی کی سوچ تھی جس نے چمبل میں تبدیلی کی بنیاد رکھی اور آہستہ آہستہ چمبل میں ڈاکوؤں کے خوف کو ختم کر دیا۔