ETV Bharat / bharat

'میرا نام انقلاب کی علامت بن چکا ہے'

دنیا کی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ تھا جب جیل میں مقیم پھانسی کا ملزم اپنی زندگی کی آخری ایام میں کتاب کی فرمائش کرتا ہے اور جواز دیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی آخری ایام اپنے علم میں اضافے کے لیے استمال کرنا چاہتا ہے۔

Bhagat Singh
author img

By

Published : Mar 23, 2019, 9:22 AM IST

زندگی کے آخری ایام تک کتاب کا طالبگار یہ نوجوان بھگت سنگھ تھا جس کا نام دنیا کے عظیم انقلابی نوجوانوں میں شمار ہوتا ہے۔
بھارت کی تاریخ میں 23 مارچ کا دن اس لیے بھی اہم ہے کہ اسی دن انقلابی مجاہد آزادی بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی۔
بھارت میں 23 مارچ کو 'شہید دیوس' کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔
بھگت سنگھ تحریک آزادی کے وہ سپاہی تھے،جنہوں نے انگریزوں سے ملک کی آزادی کے خاطر اپنی جان تک قربان کردی۔
جس دن بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی،اس دن لاہور جیل میں بند سبھی قیدیوں کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔
جب بھگت سنگھ،راج گرو اور سکھ دیو سے ان کی آخری خواہش پوچھی گئی، تو تینوں نے ایک آواز میں کہا تھا کہ ہم آپس میں گلے ملنا چاہتے ہیں۔
پھانسی سے قبل بھگت سنگھ نے اپنے آخری خط میں لکھا تھا،'ساتھیوں ظاہر ہے جینے کی خواہش مجھ میں بھی ہونی چاہیئے، اسے میں چھپانا نہیں چاہتا ہوں۔ لیکن میں ایک شرط پر زندہ رہ سکتا ہوں کہ قید ہوکر یا پابند ہوکر نہ رہوں۔ میرا نام انقلاب کی علامت بن چکا ہے۔ انقلابی فکر نے مجھے بہت اونچا اٹھا دیا ہے۔ اتنا اونچا کہ زندہ رہنے کی حالت میں اس سے اونچا نہیں ہو سکتا تھا۔ میرے ہنستے ہنستے پھانسی پر چڑھنے کی صورت میں ملک کی مائیں اپنے بچوں کے تئیں بھگت سنگھ کی امیدیں کریں گی۔ اس سے آزادی کے لیے قربانی دینے والوں کی تعداد میں اتنا اضافہ ہو جائے گا کہ انقلاب کو روکنا ناممکن ہو جائے گا۔آج مجھے خود پر فخر ہے۔ اب تو بیتابی کی آخری امتحان کا انتظار ہے۔خواہش ہے کہ یہ اور نزدیک ہو جائے'۔

زندگی کے آخری ایام تک کتاب کا طالبگار یہ نوجوان بھگت سنگھ تھا جس کا نام دنیا کے عظیم انقلابی نوجوانوں میں شمار ہوتا ہے۔
بھارت کی تاریخ میں 23 مارچ کا دن اس لیے بھی اہم ہے کہ اسی دن انقلابی مجاہد آزادی بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی۔
بھارت میں 23 مارچ کو 'شہید دیوس' کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔
بھگت سنگھ تحریک آزادی کے وہ سپاہی تھے،جنہوں نے انگریزوں سے ملک کی آزادی کے خاطر اپنی جان تک قربان کردی۔
جس دن بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی،اس دن لاہور جیل میں بند سبھی قیدیوں کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔
جب بھگت سنگھ،راج گرو اور سکھ دیو سے ان کی آخری خواہش پوچھی گئی، تو تینوں نے ایک آواز میں کہا تھا کہ ہم آپس میں گلے ملنا چاہتے ہیں۔
پھانسی سے قبل بھگت سنگھ نے اپنے آخری خط میں لکھا تھا،'ساتھیوں ظاہر ہے جینے کی خواہش مجھ میں بھی ہونی چاہیئے، اسے میں چھپانا نہیں چاہتا ہوں۔ لیکن میں ایک شرط پر زندہ رہ سکتا ہوں کہ قید ہوکر یا پابند ہوکر نہ رہوں۔ میرا نام انقلاب کی علامت بن چکا ہے۔ انقلابی فکر نے مجھے بہت اونچا اٹھا دیا ہے۔ اتنا اونچا کہ زندہ رہنے کی حالت میں اس سے اونچا نہیں ہو سکتا تھا۔ میرے ہنستے ہنستے پھانسی پر چڑھنے کی صورت میں ملک کی مائیں اپنے بچوں کے تئیں بھگت سنگھ کی امیدیں کریں گی۔ اس سے آزادی کے لیے قربانی دینے والوں کی تعداد میں اتنا اضافہ ہو جائے گا کہ انقلاب کو روکنا ناممکن ہو جائے گا۔آج مجھے خود پر فخر ہے۔ اب تو بیتابی کی آخری امتحان کا انتظار ہے۔خواہش ہے کہ یہ اور نزدیک ہو جائے'۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.