امریکہ کے پاس مشکل حالات میں ایچ آئی کیو کی ایک بھی گولی کیوں نہیں تھی؟
کووِڈ 19-کی دوائی یا اس بیماری کا کوئی مناسب علاج نہیں معلوم ہونے کی وجہ سے پوری دنیا ملیریا کی دوائی 'ہائیڈروکسیکلوروکوائین'(ایچ سی کیو) سے متاثرہ مریضوں کا علاج کررہی ہے۔امریکہ اور برازیل جیسے ممالک 30 بھارت سے ایچ سی کیو دوائی مانگ رہے ہیں لیکن بھارت میں ایچ سی کیو کی کثرت کیوں ہے؟ یہ کس حد تک کورونا وائرس کےخلاف موثر ہے؟ کیا بھارت میں اس دوائی کی موجودہ پیداوار درون خانہ اور بین الاقومی ضرورت کیلے کافی ہے؟کیا کوئی اور ملک بھی کووڈ 19کا علاج کرنے کے لیے ملیریا کی دوائی کا تجربہ کررہا ہے؟ چونکہ وبا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، کئی ممالک بھارت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
سنہ 1918میں اسپین میں پھیلے زکام (فلو) ، جس نے دُنیا بھر میں کروڑوں جانیں لی تھیں، اس کے بعدسنہ 1928سے ایک اور وبا ملیریا نے مختلف ممالک کو متاثر کرنا شروع کیا تھا۔اس بیماری کا علاج کرنے کیلئے جنوبی افریقہ کے درختوں کی ایک نسل کی چھال ،دِی بارک آف سنچونا اوفیسینالس کا استعمال کیا گیا۔ یہ چھال کیونائن نامی دوائی کا معاشی ذریعہ ہے۔ چونکہ سنہ 1930 تک مختلف ممالک میں ملیریا پھیلنا شروع ہوگیا ،یہ دوائی بڑے پیمانے پر بنائی جانے لگی اور اسکا نیا نام کلوروکوآئن رکھا گیا ۔سنہ 1950 میں ہائیڈروکسیکلوروکوآئن دوائی بنانے کیلئے اس دوائی میں مزید ترمیم ہوئی ۔ فی الوقت ایچ آئی کیو کا استعمال ملیریا ، آرتھرائٹس اور کچھ آٹو ایمیون ڈیزیزز کیلئے کیا جاتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں ملیریا کا مرض عام نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان ممالک نے 1980سے ہی ایچ آئی کیو بنانا بند کردیا تھا۔چونکہ اسکی قیمت کم ہے ،دوا ساز کمپنیوں کو ایچ آئی کیو دوائی کی فروخت سے کم منافع ملتا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ،برطانیہ اور فرانس اس دوائی کے لئے صرف درآمد پر منحصر ہیں۔ ملیریا کے مریض ترقی پذیر اور غریب ممالک میں زیادہ ہیں جبکہ زیادہ دیہی آبادی والے ممالک میں ان مریضوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین اور بھارت ایچ آئی کیو کے سب سے بڑے تیار کردگان ہیں یہاں تک کہ بھارت اس دوائی کا 70 فیصد بر آمد کرتا ہے ۔ لیکن ایچ آئی کیو کی تیاری کیلئے درکار ایکٹیو فارماسیوٹیکل انگریڈینٹ (اے پی آئی) چین سے درآمد کیا جاتا ہے۔ بھارت کی دوا ساز کمپنیاں ماہانہ ایچ آئی کیو کی(200ملی گرام خوراک والی) 20کروڑ گولیاں تیار کرسکتی ہیں ۔ہماری سالانہ ایچ آئی کیو کی اپنی ضرورت 2.4 گولیوں کی ہے جبکہ موجودہ حالات میں ہم عام مقدار کے مقابلے میں چار گنا دوائی بناتے ہیں۔
امریکہ میں ملیریا کا مرض سب سے کم ہے لہٰذا وہاں ایچ آئی کیو کا کوئی ذخیرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔امریکہ میں عام طور پر لکھی جانے والی دوائیوں میں ایچ آئی کیو 128 ویں نمبر پر ہے۔
کووِڈ 19-پر ایچ آئی کیو کا مختلف ممالک میں مختلف طریقے سے اثر ہوتے دیکھا جا رہا ہے۔سویڈن میں محققین نے 100میں سے 1 مریض میں ایچ آئی کیو کے دل اور گردوں پر مضر اثرات ہوتے پائے ہیں ۔آئی سی ایم آر نے یہ بھی ہدایت دی ہے کہ ایچ آئی کیو 15سال سے کم عمر کے بچوں اور 60 سال سے زیادہ عمر کے بزرگوں کو نہیں دی جانی چاہیئے لیکن امریکی محققین کا کہنا ہے کہ ایچ آئی کیو کے استعمال کے مثبت نتائج آئے ہیں۔ چین اور فرانس نے بھی ایسے ہی مشاہدات کئے ہیں۔برطانیہ اور آسٹریلیا میں ابھی تک تحقیق جاری ہی ہے ۔بھارت میں نازک مریضوں کو ایزی تھرومائسن کے ساتھ یہ دوائی دی جاتی ہے جبکہ ان دو دوائیوں کا امتزاج ڈاکٹروں اور نرسوں کو بطور احتیاطی تدبیر تجویز کیا جاتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق 14 گولیاں مکمل خوراک ہے۔ ایک دور اندیشانہ اقدام کے بطور مرکزی سرکار نے 70 لاکھ مریضوں کا اندازہ لگاتے ہوئے دوا ساز کمپنیوں کو اضافی 10 کروڑ گولیاں تیار رکھنے کا حکم دیا ہے۔