ETV Bharat / bharat

ہم کروناوائرس کے خلاف بر سر جنگ ہیں - ہم کروناوائرس کے خلاف بر سر جنگ ہیں

کورونا وائرس کے خلاف جاری یہ جنگ مشکلات سے بھری ہے جس میں شہری حصہ لے رہا ہے۔ ان مشکلات سے نمٹنے کے لئے ہمیں مختلف حکمت عملیاں اختیار کرنی پڑیں گی ۔ہمیں ابتدائی منصوبے کو بھی بدلنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن ہمارا مقصد یعنی کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کا مقصد نہیں بدل سکتا ہے۔اس لئے اس وقت ہماری ہر حرکت اور ہر قدم کا یہی مقصد ہونا چاہیے۔

ہم کروناوائرس کے خلاف بر سر جنگ ہیں
ہم کروناوائرس کے خلاف بر سر جنگ ہیں
author img

By

Published : Mar 26, 2020, 8:14 PM IST

اس وقت دُنیا کوروناوائرس کے خلاف جس طرح سے جدوجہد کررہی ہے، اسے ایک جنگ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔اِس جنگ میں ہمارا دُشمن نظر نہیں آتا ہے۔ لیکن یہ اُن دشمنوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے، جن کے ساتھ بھارت ماضی میں نبرد آزما ہوچکا ہے۔ہمیں نہیں پتہ کہ یہ جنگ کتنے انسانو کو نگل جائیگی۔لیکن اس جنگ میں پہلے ہی ہماری خوشحالی اور ہمارا طرز زندگی ہم سے چھن چکا ہے۔ جبکہ یہ دُشمن ہمارے مستقبل پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔

عام طرح کی جنگوں میں صرف فوج لڑتی ہے، عام شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے لیکن کورونا وائرس کے خلاف ہماری اس جنگ میں ہمارا ہر شہری ایک سپاہی ہے۔ یہ جنگ آسان نہیں ہے۔ تاہم اس جنگ میں شاید ہم فوجی زندگی سے کچھ رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔جب سرحد پر ایک فوجی دُشمن کی چوکی پر حملہ کرتا ہے تو اس کے پیچھے پندرہ کلو میڑ کے دائرے تک بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہوتی ہیں۔ تاکہ دشمن اندر داخل نہ ہوپائے ۔ اس کے علاوہ لڑنے والے سپاہیوں تک مزید اسلحہ، خوراک اور دیگر ضروری سپلائی پہنچانے کے لئے فوج کی کمک تیار رہتی ہے۔اگر سرحدوں پر لڑی جانے والی اس جنگ میں ہر متعلقہ شخص اپنی ذمہ داری اچھی طرح نہیں نبھائے گا، تو جنگ میں شکست یقینی ہوتی ہے۔

آج کورونا وائرس کے خلاف ہم جو جنگ لڑرہے ہیں ،اس کی نوعیت مختلف ہے۔ اس جنگ میں کوئی سر حدمتعین نہیں ہے اور نہ ہی کوئی علاقہ محفوظ ہے۔ اس جنگ میں امیر و غریب میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ اس جنگ میں ہمارے معالجین ، نرسیں ، پولیس افسران اور ایمرجنسی اسٹاف ہر اول دستے کی مانند خلاف لڑرہے ہیں۔اس لئے ہر شہری کو ان سپاہیوں کی مدد اور ان پر دباؤ کم کرنے میں اپنا رول نبھانا ہوگا۔

جنوبی کوریا میں کورونا وائرس کا پہلا معاملہ 20جنوری کو نمودار ہوا تھا۔ اس کے چار ہفتے بعد متاثرین کی تعداد 30تھی۔ 31واں متاثرہ فرد ایک خاتون تھیں۔ اس نے اپنی جانچ کرانے سے انکار کیا تھا اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہی تھیں۔ جس چرچ میں وہ گئی تھیں، وہاں موجود بہت لوگ متاثر ہوگئے۔ چرچ میں متاثر ہونے والے ان لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ وہ جنوبی کوریا میں وائرس کا شکار متاثرین کی مجموعی تعداد کا 60فیصد تھے۔جنوبی کوریا میں رونما ہوا یہ واقعہ ہمارے لئے سبق آموز ہے۔ یہ سبق ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اگر ہم میں سے کوئی بھی متاثرہ شخص لاپرواہی کا مرتکب ہوا تو ہم یہ جنگ ہار جائیں گے۔

فوج کی جنگ میں جو بات کامیابی میں سب سے بڑا رول ادا کرتی ہے ، وہ احکامات کی پاسداری کرنے کا نظام ہے ۔ سموئل ہنٹنگ ٹن نے تابعداری کا نظام فوج کا سب سے اہم گُن قرار دیا ہے۔ اگر فوج میں تابعداری کا مظاہرہ نہ کیا جائے، تو جنگ جیت جانا تو دُور کی بات ، جنگ لڑی بھی نہیں جاسکتی ہے۔کورونا وائرس کے خلاف ہماری لڑائی میں ہمارا ذخیرہ بھر پور ہونا چاہیے اور ہمارا عزم پختہ ہونا چاہیے۔ اس وقت ہمیں جس طرح کے خطرات لاحق ہیں، اس میں ہماری تھوڑی سی بھی غفلت بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

ہماری سیاسی قیادت اس بحران میں صحیح فیصلہ لئے رہی ہے یا غلط اس بات کا فیصلہ بعد میں کیا جاسکتا ہے۔ فی الحال اس ہمیں اس بحث میں نہیں الجھنا چاہیے۔اس وقت ہمیں انتظامیہ پر پورا بھروسہ کرتے ہوئے یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تاکہ ہم دُشمن کو شکست دے سکیں۔ فوج میں ہم اکثر کہتے ہیں کہ دُشمن کے ساتھ مقابلہ شروع ہوجانے کے بعد کوئی منصوبہ باقی نہیں رہ جاتا ہے ۔ صرف لڑنا ہوتا ہے۔ کیونکہ جب گولیاں چلتی ہیں تو صورتحال یکسر بدل جاتی ہے۔ لڑنے والے سپاہیوں کو جنگ شروع ہوتے ہی فوراً خود کو میدان جنگ کے حالات کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے ۔ فوجی جنگ میں اصل مقصد اور ہدف کو برقرار رکھتے ہوئے سپاہی خودبدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اپنے جنگی منصوبوں میں تغیر و تبدیلی لاسکتے ہیں۔

کورونا وائرس کے خلاف جاری یہ جنگ مشکلات سے بھری ہے جس میں شہری حصہ لے رہا ہے۔ ان مشکلات سے نمٹنے کے لئے ہمیں مختلف حکمت عملیاں اختیار کرنی پڑیں گی ۔ہمیں ابتدائی منصوبے کو بھی بدلنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن ہمارا مقصد یعنی کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کا مقصد نہیں بدل سکتا ہے۔اس لئے اس وقت ہماری ہر حرکت اور ہر قدم کا یہی مقصد ہونا چاہیے۔

آخری بات یہ کہ عام جنگ میں فوجی یہ سوچ کر لڑتے ہیں کہ اُنہیں حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔یہ بات طے ہوتی ہے کہ جنگ میں حکومت فوج کی پشت پناہی کررہی ہوتی ہے۔اس طرح کی جنگ میں فوجیوں کو ذاتی قربانیاں دینے کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا جاتا ہے ۔ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان فوجیوں کو تحفظ فراہم کریں اور ان کے کنبوں کو معاوضہ فراہم کرے ۔ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں بھی ہم سب کو قربانیاں دینی ہونگی ۔اس کے جواب میں حکومت کو وہ سب کچھ کرنا چاہیے، جو وہ کرسکتی ہے۔حکومت کو اشیاء ضروری اور ادویات کی سپلائی یقینی بنانی ہوگی۔ مریضوں اور عمر رسیدہ لوگوں کو ہیلتھ سروسز فراہم کرنی ہونگیں۔ ایسا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

طویل لاک ڈائون کے معاشی اثرات عیاں ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ روزانہ کی اجرت میں کام کرنے والے مزدور سب سے زیادہ متاثرہورہے ہیں۔ ہر طرح کی تجارت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کا تخمینہ ہے کہ دُنیا اسی پیمانے کے معاشی بحران سے دوچار ہوسکتی ہے ، جس طرح کا بحران سال 2008ء میںرونما ہوا تھا۔ اس لئے حکومت کو فوری طور ہر مالی متبادلات کا اعلان کرنا چاہئے۔ تاکہ غریب اور بزرگ شہریوں کو معاشی تحفظ فراہم کیا جاسکے ۔ کسی ملک کے پاس اگر ایک اعلیٰ سطحی سازو سامان کی حامل فوج ہو، لیکن اس فوج کے سپاہی قربانیاں دینے کے لئے تیار نہ ہوں تو وہ ملک جنگ جیت ہی نہیں سکتا۔

کورونا وائرس کے خلاف ہماری اس جنگ میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اِس جنگ میں ہماری زندگیاں ہی نہیں بلکہ ہمارا طرز زندگی بھی داؤ پر لگا ہوا ہے ۔میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ شہریوں کو اپنی زندگیاں خطرات سے دوچار کرنی چاہیں لیکن اس جنگ کو جیتنے کے لئے ہمیں کچھ حد تک قربانیاں دینی ہی پڑیں گی ۔مہاتما گاندھی کے یہ الفاظ ہماری رہنمائی کرتے ہیں کہ ’’ہمارے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم آج کیا کررہے ہیں۔‘

اس وقت دُنیا کوروناوائرس کے خلاف جس طرح سے جدوجہد کررہی ہے، اسے ایک جنگ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔اِس جنگ میں ہمارا دُشمن نظر نہیں آتا ہے۔ لیکن یہ اُن دشمنوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے، جن کے ساتھ بھارت ماضی میں نبرد آزما ہوچکا ہے۔ہمیں نہیں پتہ کہ یہ جنگ کتنے انسانو کو نگل جائیگی۔لیکن اس جنگ میں پہلے ہی ہماری خوشحالی اور ہمارا طرز زندگی ہم سے چھن چکا ہے۔ جبکہ یہ دُشمن ہمارے مستقبل پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔

عام طرح کی جنگوں میں صرف فوج لڑتی ہے، عام شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے لیکن کورونا وائرس کے خلاف ہماری اس جنگ میں ہمارا ہر شہری ایک سپاہی ہے۔ یہ جنگ آسان نہیں ہے۔ تاہم اس جنگ میں شاید ہم فوجی زندگی سے کچھ رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔جب سرحد پر ایک فوجی دُشمن کی چوکی پر حملہ کرتا ہے تو اس کے پیچھے پندرہ کلو میڑ کے دائرے تک بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ہوتی ہیں۔ تاکہ دشمن اندر داخل نہ ہوپائے ۔ اس کے علاوہ لڑنے والے سپاہیوں تک مزید اسلحہ، خوراک اور دیگر ضروری سپلائی پہنچانے کے لئے فوج کی کمک تیار رہتی ہے۔اگر سرحدوں پر لڑی جانے والی اس جنگ میں ہر متعلقہ شخص اپنی ذمہ داری اچھی طرح نہیں نبھائے گا، تو جنگ میں شکست یقینی ہوتی ہے۔

آج کورونا وائرس کے خلاف ہم جو جنگ لڑرہے ہیں ،اس کی نوعیت مختلف ہے۔ اس جنگ میں کوئی سر حدمتعین نہیں ہے اور نہ ہی کوئی علاقہ محفوظ ہے۔ اس جنگ میں امیر و غریب میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ اس جنگ میں ہمارے معالجین ، نرسیں ، پولیس افسران اور ایمرجنسی اسٹاف ہر اول دستے کی مانند خلاف لڑرہے ہیں۔اس لئے ہر شہری کو ان سپاہیوں کی مدد اور ان پر دباؤ کم کرنے میں اپنا رول نبھانا ہوگا۔

جنوبی کوریا میں کورونا وائرس کا پہلا معاملہ 20جنوری کو نمودار ہوا تھا۔ اس کے چار ہفتے بعد متاثرین کی تعداد 30تھی۔ 31واں متاثرہ فرد ایک خاتون تھیں۔ اس نے اپنی جانچ کرانے سے انکار کیا تھا اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتی رہی تھیں۔ جس چرچ میں وہ گئی تھیں، وہاں موجود بہت لوگ متاثر ہوگئے۔ چرچ میں متاثر ہونے والے ان لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ وہ جنوبی کوریا میں وائرس کا شکار متاثرین کی مجموعی تعداد کا 60فیصد تھے۔جنوبی کوریا میں رونما ہوا یہ واقعہ ہمارے لئے سبق آموز ہے۔ یہ سبق ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اگر ہم میں سے کوئی بھی متاثرہ شخص لاپرواہی کا مرتکب ہوا تو ہم یہ جنگ ہار جائیں گے۔

فوج کی جنگ میں جو بات کامیابی میں سب سے بڑا رول ادا کرتی ہے ، وہ احکامات کی پاسداری کرنے کا نظام ہے ۔ سموئل ہنٹنگ ٹن نے تابعداری کا نظام فوج کا سب سے اہم گُن قرار دیا ہے۔ اگر فوج میں تابعداری کا مظاہرہ نہ کیا جائے، تو جنگ جیت جانا تو دُور کی بات ، جنگ لڑی بھی نہیں جاسکتی ہے۔کورونا وائرس کے خلاف ہماری لڑائی میں ہمارا ذخیرہ بھر پور ہونا چاہیے اور ہمارا عزم پختہ ہونا چاہیے۔ اس وقت ہمیں جس طرح کے خطرات لاحق ہیں، اس میں ہماری تھوڑی سی بھی غفلت بہت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

ہماری سیاسی قیادت اس بحران میں صحیح فیصلہ لئے رہی ہے یا غلط اس بات کا فیصلہ بعد میں کیا جاسکتا ہے۔ فی الحال اس ہمیں اس بحث میں نہیں الجھنا چاہیے۔اس وقت ہمیں انتظامیہ پر پورا بھروسہ کرتے ہوئے یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تاکہ ہم دُشمن کو شکست دے سکیں۔ فوج میں ہم اکثر کہتے ہیں کہ دُشمن کے ساتھ مقابلہ شروع ہوجانے کے بعد کوئی منصوبہ باقی نہیں رہ جاتا ہے ۔ صرف لڑنا ہوتا ہے۔ کیونکہ جب گولیاں چلتی ہیں تو صورتحال یکسر بدل جاتی ہے۔ لڑنے والے سپاہیوں کو جنگ شروع ہوتے ہی فوراً خود کو میدان جنگ کے حالات کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے ۔ فوجی جنگ میں اصل مقصد اور ہدف کو برقرار رکھتے ہوئے سپاہی خودبدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اپنے جنگی منصوبوں میں تغیر و تبدیلی لاسکتے ہیں۔

کورونا وائرس کے خلاف جاری یہ جنگ مشکلات سے بھری ہے جس میں شہری حصہ لے رہا ہے۔ ان مشکلات سے نمٹنے کے لئے ہمیں مختلف حکمت عملیاں اختیار کرنی پڑیں گی ۔ہمیں ابتدائی منصوبے کو بھی بدلنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن ہمارا مقصد یعنی کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کا مقصد نہیں بدل سکتا ہے۔اس لئے اس وقت ہماری ہر حرکت اور ہر قدم کا یہی مقصد ہونا چاہیے۔

آخری بات یہ کہ عام جنگ میں فوجی یہ سوچ کر لڑتے ہیں کہ اُنہیں حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے۔یہ بات طے ہوتی ہے کہ جنگ میں حکومت فوج کی پشت پناہی کررہی ہوتی ہے۔اس طرح کی جنگ میں فوجیوں کو ذاتی قربانیاں دینے کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا جاتا ہے ۔ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان فوجیوں کو تحفظ فراہم کریں اور ان کے کنبوں کو معاوضہ فراہم کرے ۔ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں بھی ہم سب کو قربانیاں دینی ہونگی ۔اس کے جواب میں حکومت کو وہ سب کچھ کرنا چاہیے، جو وہ کرسکتی ہے۔حکومت کو اشیاء ضروری اور ادویات کی سپلائی یقینی بنانی ہوگی۔ مریضوں اور عمر رسیدہ لوگوں کو ہیلتھ سروسز فراہم کرنی ہونگیں۔ ایسا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

طویل لاک ڈائون کے معاشی اثرات عیاں ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ روزانہ کی اجرت میں کام کرنے والے مزدور سب سے زیادہ متاثرہورہے ہیں۔ ہر طرح کی تجارت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کا تخمینہ ہے کہ دُنیا اسی پیمانے کے معاشی بحران سے دوچار ہوسکتی ہے ، جس طرح کا بحران سال 2008ء میںرونما ہوا تھا۔ اس لئے حکومت کو فوری طور ہر مالی متبادلات کا اعلان کرنا چاہئے۔ تاکہ غریب اور بزرگ شہریوں کو معاشی تحفظ فراہم کیا جاسکے ۔ کسی ملک کے پاس اگر ایک اعلیٰ سطحی سازو سامان کی حامل فوج ہو، لیکن اس فوج کے سپاہی قربانیاں دینے کے لئے تیار نہ ہوں تو وہ ملک جنگ جیت ہی نہیں سکتا۔

کورونا وائرس کے خلاف ہماری اس جنگ میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اِس جنگ میں ہماری زندگیاں ہی نہیں بلکہ ہمارا طرز زندگی بھی داؤ پر لگا ہوا ہے ۔میں یہ نہیں کہتا ہوں کہ شہریوں کو اپنی زندگیاں خطرات سے دوچار کرنی چاہیں لیکن اس جنگ کو جیتنے کے لئے ہمیں کچھ حد تک قربانیاں دینی ہی پڑیں گی ۔مہاتما گاندھی کے یہ الفاظ ہماری رہنمائی کرتے ہیں کہ ’’ہمارے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم آج کیا کررہے ہیں۔‘

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.