ETV Bharat / bharat

واجد علی شاہ کی یادگار مٹیابرج شاہی امام بارگاہ سبطین آباد - واجد علی شاہ

کولکاتا کے مٹیابرج کے شاہی امام بارگاہ سبطین آباد میں اس بار روایتی انداز میں عزاداری کا اہتمام نہیں ہوگا۔حالانکہ لکھنؤ سے کلکتہ آنے کے بعد اودھ کے آخری تاجدار پوری زندگی اسی شاہی امام بارگاہ میں عزادری کرتے اور مرثیہ پڑھا کرتے تھے۔

sf
sdf
author img

By

Published : Aug 24, 2020, 10:46 PM IST

مغربی بنگال میں متعدد امام بارگاہیں ہیں، لیکن کولکاتا کے مٹیابرج میں قائم شاہی امام بارگاہ سبطین آباد کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔اس امام بارگاہ کی تاریخی حیثیت اسے ممتاز بناتی ہے۔اس کا تاریخ سے گہرا رشتہ ہے اور ماضی کے کئی نقوش اس امام بارگاہ سے وابستہ ہیں۔

ویڈیو

جب اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کو معزول کرکے کولکاتا بھیج دیا گیا تو نواب علی شاہ نے کولکاتا کے مٹیابرج میں سکونت اختیار کی اور یہیں ایک چھوٹا سا لکھنؤ بسایا تھا۔ واجد علی شاہ مٹیابرج میں لکھنؤ جیسا ماحول چاہتے تھے، جس کے لئے انہوں نے کئی چیزیں تعمیر کرائیں۔

سنہ 1866میں واجد علی شاہ نے مٹیابرج میں سبطین آباد شاہی امام بارگاہ تعمیر کروائی جو آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔اس امام بارگاہ کو کئی معنوں میں خصوصیت حاصل ہے۔

واجد علی شاہ کے ساتھ ان کے درباریوں اور چاہنے والے بھی کلکتہ آئے تھے۔آج مٹیابرج میں جو آبادی ہے وہ واجد علی شاہ کے ساتھ لکھنؤ سے آنے والوں کے ہی آل اولاد ہیں۔ پورے بنگال میں سب سے زیادہ اہل تشیع کی آبادی مٹیابرج برج میں ہی ہے۔

اس امام بارگاہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے واجد علی شاہ کے نبیرہ کامران علی مرزا نے بتایا کہ واجد علی شاہ کو لکھنؤ سے بہت محبت تھی یہی وجہ ہے کہ جب دل ناخواستہ ان کو کلکتے میں سکونت اختیار کرنی پڑی تو انہوں نے مٹیابرج برج کو لکھنؤ کے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی اور سنہ 1866 میں شاہی امام بارگاہ سبطین آباد کی تعمیر کروائی وہ محرم کے موقع پر جلوس میں شامل ہوتے تھے اور شاہی امام بارگاہ میں مرثیہ خوانی کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ اس امام بارگاہ تاریخی حیثیت سے بھی اہم ہے کیونکہ یہی واجد علی شاہ کی آخری آرام گاہ ہے۔ اس کے علاوہ ان کے بیٹے برجیس قدر مرزا کی بھی اسی امام بارگاہ میں قبر ہے۔امام بارگاہ میں طرز تعمیر پر لکھنؤ کا رنگ جھلکتا ہے۔

مغربی بنگال میں متعدد امام بارگاہیں ہیں، لیکن کولکاتا کے مٹیابرج میں قائم شاہی امام بارگاہ سبطین آباد کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔اس امام بارگاہ کی تاریخی حیثیت اسے ممتاز بناتی ہے۔اس کا تاریخ سے گہرا رشتہ ہے اور ماضی کے کئی نقوش اس امام بارگاہ سے وابستہ ہیں۔

ویڈیو

جب اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کو معزول کرکے کولکاتا بھیج دیا گیا تو نواب علی شاہ نے کولکاتا کے مٹیابرج میں سکونت اختیار کی اور یہیں ایک چھوٹا سا لکھنؤ بسایا تھا۔ واجد علی شاہ مٹیابرج میں لکھنؤ جیسا ماحول چاہتے تھے، جس کے لئے انہوں نے کئی چیزیں تعمیر کرائیں۔

سنہ 1866میں واجد علی شاہ نے مٹیابرج میں سبطین آباد شاہی امام بارگاہ تعمیر کروائی جو آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔اس امام بارگاہ کو کئی معنوں میں خصوصیت حاصل ہے۔

واجد علی شاہ کے ساتھ ان کے درباریوں اور چاہنے والے بھی کلکتہ آئے تھے۔آج مٹیابرج میں جو آبادی ہے وہ واجد علی شاہ کے ساتھ لکھنؤ سے آنے والوں کے ہی آل اولاد ہیں۔ پورے بنگال میں سب سے زیادہ اہل تشیع کی آبادی مٹیابرج برج میں ہی ہے۔

اس امام بارگاہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے واجد علی شاہ کے نبیرہ کامران علی مرزا نے بتایا کہ واجد علی شاہ کو لکھنؤ سے بہت محبت تھی یہی وجہ ہے کہ جب دل ناخواستہ ان کو کلکتے میں سکونت اختیار کرنی پڑی تو انہوں نے مٹیابرج برج کو لکھنؤ کے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی اور سنہ 1866 میں شاہی امام بارگاہ سبطین آباد کی تعمیر کروائی وہ محرم کے موقع پر جلوس میں شامل ہوتے تھے اور شاہی امام بارگاہ میں مرثیہ خوانی کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ اس امام بارگاہ تاریخی حیثیت سے بھی اہم ہے کیونکہ یہی واجد علی شاہ کی آخری آرام گاہ ہے۔ اس کے علاوہ ان کے بیٹے برجیس قدر مرزا کی بھی اسی امام بارگاہ میں قبر ہے۔امام بارگاہ میں طرز تعمیر پر لکھنؤ کا رنگ جھلکتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.