عالمی شہرت یافتہ شاعر مرزا غالب کا نام کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں ہے، انہوں نے اپنی شاعری سے اہل سخن کے دلوں میں ایک خاص جگہ بنائی ہے اور آج بھی لوگ ان شاعری پڑھ اور سُن کر محظوظ ہوتے ہیں۔
مرزا غالب کی پیدائش 27 دسمبر سنہ 1797 کو آگرہ میں ہوئی تھی جبکہ 15 فروری سنہ 1869 کو انہوں نے اس دنیا کو الوداع کہا تھا، ان کا پورا نام مرزا اسد اللہ خان غالب تھا اور تخلص مرزا غالب تھا، اسی مناسبت سے ہر برس کی طرح اس برس بھی مرزا غالب کی یوم وفات پر مختلف تقاریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔
گزشتہ 50 برسوں سے مرزا غالب کے یوم وفات(15 فروری) کے مزار غالب گلہائے عقیدت پیش کرنے اور اس موقع پر مختلف تقاری کا اہتمام کیا جاتا ہے اور مرتبہ بھی اس سلسلے میں پروگرام کا اہتمام کیا گیا ہے۔
اس موقع پر مزارِ غالب پر گلہائے عقیدت، فاتحہ خوانی، تقاریر کے ذریعے خراج عقیدت پیش کیاجائے گا۔
اس جلسے میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر ابن کنول موجود رہیں گے جبکہ صدارت پروفیسر شمیم حنفی، پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی افتتاحی تقریر فرمائیں گے۔
اس کے علاوہ پروفیسر شریف حسین قاسمی، ڈاکٹر خالد علوی اور ڈاکٹر سید رضا حیدر اور ڈاکٹر عقیل احمد، مرزا غالب کی زندگی اور شاعری پر اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔
اس موقع پر ایک طرحی مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے، اس مشاعرے کی صدارت ظفر مرادآبادی اور نظامت کے فرائض معین شاداب انجام دیں گے۔
طرحی مشاعرے میں جن شعراء کو مدعو کیا گیا ہے اُن میں وقار مانوی، ظفر مراد آبادی، ابرار کرتپوری، متین امروہوی، نسیم عباسی، پروفیسر شہیر رسول، جمیل مانوی، معین شاداب، اقبال فردوسی، بھٹناگر شاداب، آشکارا خانم کشف اور ڈاکٹر عفت زریں کے نام شامل ہیں۔
مرزا غالب کی شاعری کا اعجاز یہ ہے کہ آج بھی غالب کی شاعری کو سمجھنا، سننااور گفتگو کرنا ہر شخص اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہے۔
واضح رہے کہ مزارِ غالب پر مرزا غالب کی یومِ وفات کے موقع پر گزشتہ 50 برسوں سے خراجِ عقیدت پیش کیا جارہا ہے، انجمن ترقی اردو (دہلی) کے صدر مسعود فاروقی، خورشید عالم، جنرل سکریٹری اور جوائنٹ سکریٹری ڈاکٹر ادریس اور ہاجرہ منظور نے اس جلسے کے اہتمام و انتظام میں اہم کردار ادا کیا ہے لہٰذا امید کی جارہی ہے کہ بڑی تعداد میں اہل سخن مزار غالب پر غالب کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے موجود رہیں۔